اسلام آباد —
پاکستان میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتوں نے صدارتی انتخاب کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے۔
ان کے مشترکہ صدارتی امیدوار سینیٹر رضا ربانی نے جمعہ کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’وفاقیت کو بچانے کے لیے‘‘ دیگر ہم خیال سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کو ایک خط کے ذریعے صدارتی انتخابات سے ان کی دست برداری کے فیصلے سے آگاہ کردیا گیا ہے۔
’’جب ہم نے دیکھا کہ صدر مملکت کا دفتر جو آئینی دفتر ہے اور وفاق کی علامت ہے، کو تبدیل کرکے ون یونٹ کو مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور صوبائی اسمبلیوں کو یہ احساس دلانے کے لیے کہ ہم ان کے ساتھ ہیں ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں رہا سوائے اس بائیکاٹ کے۔‘‘
سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ ان کی جماعت ایک ’’حقیقی‘‘ حزب اختلاف کا کردار اپناتے ہوئے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تمام معاملات پر آواز اٹھائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ رجت پسند قوتیں اور کچھ بڑے کاروباری شخصیات ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر اقتدار پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں۔
’’نا سمجھا جائے کہ الیکشن کا بائیکاٹ کیا تو قصہ مک گیا۔ –کہانی اتھو شروع ہوندی اے۔ ہماری جدوجہد جاری رہے گی اس نظام اور اس سوچ کے خلاف۔‘‘
بعد میں وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سینیٹر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی سیاسی فیصلوں کو عدالتوں کے ذریعے کروانے پر یقین نہیں رکھتی اسی بنیاد پر انتخابات کی تاریخ میں تبدیلی کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع نہیں کیا گیا۔
’’جب پہلی ہی بار ہمیں نہیں سناگیا اور یک طرفہ فیصلہ کیا گیا تو پھر اپیل یا نظرثانی کی درخواست میں کیا ہوتا۔‘‘
الیکشن سے دست برداری سے حکمران جماعت کے امیدوار کو کھلا میدان مہیا کرنے کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ اس سے صدارتی انتخابات پر سوالیہ نشان اٹھائیں گے۔
پی پی پی قومی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ صوبہ سندھ میں حکمران جماعت جبکہ اسے پارلمان کے ایوان بالا یعنی سینٹ میں بھی اکثریت حاصل ہے۔
پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ ’’قانونی اور آئینی تقاضوں کو بالائے طاق‘‘رکھتے ہوئے انتخابات کی تاریخ سے متعلق ان کے موقف کو سنے بغیر عدالت عظمیٰ نے فیصلہ دیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے صدارتی امیدوار رضا ربانی نے عدالتی فیصلے کو وفاقیت پر کاری ضرب قرار دیا تھا۔
پی پی پی کے ساتھ عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ (ق) اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) نے بھی انتخابات میں حصہ نا لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
ملک میں صدارتی انتخاب چھ اگست کو ہونا تھے لیکن سپریم کورٹ نے حکمران مسلم لیگ ن کی طرف سے دائر کی گئی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے یہ انتخاب 30 جولائی کو کروانے کا حکم دیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کے مطابق رمضان کے آخری عشرے میں بہت سے قانون ساز عمرے کی ادائیگی کے لیے بیرون ملک ہوں گے اور بعض اعتکاف میں ہونے کی وجہ سے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے سے محروم رہیں گے لہذا انتخابات کی تاریخ تبدیل کی جائے۔
قومی اسمبلی میں تیسری بڑی اور صوبہ خیبرپختونخواہ میں حکمران جماعت تحریک انصاف کے صدارتی امیدوار وجیہہ الدین احمد انتخابات کے بائیکاٹ کو مسائل کا حل نہیں سمجھتے تاہم ان کا کہنا ہے
’’الیکشن کمیشن نے تو آئین میں انتخابی عمل کے لیے دیے گئے وقت کو صیحح انداز میں استعمال ہی نہیں کیا اور نا ہی تو ووٹر کو وقت ملا کہ وہ امیدواروں کے بارے میں تفصیلی طور جان سکیں اور نا ہی امیدوار انہیں کچھ بتا سکے۔‘‘
سرکاری ٹی وی کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ سے ملاقات میں پیپلزپارٹی کے بائیکاٹ کے فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے اسے جمہوری تقاضوں کے منافی قرار دیا ہے۔ انہوں نے تحریک انصاف طرف سے انتخابات میں شمولیت کو سراہا۔
عدالت عظمیٰ کی طرف سے انتخابات کی تاریخ میں تبدیلی اور پیپلز پارٹی کے بائیکاٹ کے بعد مبصرین کا کہنا ہے کہ اب نواز شریف کے منتخب کردہ امیدوار ممنون حسین کی جیت یقینی ہوگئی ہے۔
ان کے مشترکہ صدارتی امیدوار سینیٹر رضا ربانی نے جمعہ کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’وفاقیت کو بچانے کے لیے‘‘ دیگر ہم خیال سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کو ایک خط کے ذریعے صدارتی انتخابات سے ان کی دست برداری کے فیصلے سے آگاہ کردیا گیا ہے۔
’’جب ہم نے دیکھا کہ صدر مملکت کا دفتر جو آئینی دفتر ہے اور وفاق کی علامت ہے، کو تبدیل کرکے ون یونٹ کو مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور صوبائی اسمبلیوں کو یہ احساس دلانے کے لیے کہ ہم ان کے ساتھ ہیں ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں رہا سوائے اس بائیکاٹ کے۔‘‘
سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ ان کی جماعت ایک ’’حقیقی‘‘ حزب اختلاف کا کردار اپناتے ہوئے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تمام معاملات پر آواز اٹھائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ رجت پسند قوتیں اور کچھ بڑے کاروباری شخصیات ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر اقتدار پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں۔
’’نا سمجھا جائے کہ الیکشن کا بائیکاٹ کیا تو قصہ مک گیا۔ –کہانی اتھو شروع ہوندی اے۔ ہماری جدوجہد جاری رہے گی اس نظام اور اس سوچ کے خلاف۔‘‘
بعد میں وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سینیٹر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی سیاسی فیصلوں کو عدالتوں کے ذریعے کروانے پر یقین نہیں رکھتی اسی بنیاد پر انتخابات کی تاریخ میں تبدیلی کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع نہیں کیا گیا۔
’’جب پہلی ہی بار ہمیں نہیں سناگیا اور یک طرفہ فیصلہ کیا گیا تو پھر اپیل یا نظرثانی کی درخواست میں کیا ہوتا۔‘‘
الیکشن سے دست برداری سے حکمران جماعت کے امیدوار کو کھلا میدان مہیا کرنے کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ اس سے صدارتی انتخابات پر سوالیہ نشان اٹھائیں گے۔
پی پی پی قومی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ صوبہ سندھ میں حکمران جماعت جبکہ اسے پارلمان کے ایوان بالا یعنی سینٹ میں بھی اکثریت حاصل ہے۔
پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ ’’قانونی اور آئینی تقاضوں کو بالائے طاق‘‘رکھتے ہوئے انتخابات کی تاریخ سے متعلق ان کے موقف کو سنے بغیر عدالت عظمیٰ نے فیصلہ دیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے صدارتی امیدوار رضا ربانی نے عدالتی فیصلے کو وفاقیت پر کاری ضرب قرار دیا تھا۔
پی پی پی کے ساتھ عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ (ق) اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) نے بھی انتخابات میں حصہ نا لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
ملک میں صدارتی انتخاب چھ اگست کو ہونا تھے لیکن سپریم کورٹ نے حکمران مسلم لیگ ن کی طرف سے دائر کی گئی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے یہ انتخاب 30 جولائی کو کروانے کا حکم دیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کے مطابق رمضان کے آخری عشرے میں بہت سے قانون ساز عمرے کی ادائیگی کے لیے بیرون ملک ہوں گے اور بعض اعتکاف میں ہونے کی وجہ سے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے سے محروم رہیں گے لہذا انتخابات کی تاریخ تبدیل کی جائے۔
قومی اسمبلی میں تیسری بڑی اور صوبہ خیبرپختونخواہ میں حکمران جماعت تحریک انصاف کے صدارتی امیدوار وجیہہ الدین احمد انتخابات کے بائیکاٹ کو مسائل کا حل نہیں سمجھتے تاہم ان کا کہنا ہے
’’الیکشن کمیشن نے تو آئین میں انتخابی عمل کے لیے دیے گئے وقت کو صیحح انداز میں استعمال ہی نہیں کیا اور نا ہی تو ووٹر کو وقت ملا کہ وہ امیدواروں کے بارے میں تفصیلی طور جان سکیں اور نا ہی امیدوار انہیں کچھ بتا سکے۔‘‘
سرکاری ٹی وی کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ سے ملاقات میں پیپلزپارٹی کے بائیکاٹ کے فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے اسے جمہوری تقاضوں کے منافی قرار دیا ہے۔ انہوں نے تحریک انصاف طرف سے انتخابات میں شمولیت کو سراہا۔
عدالت عظمیٰ کی طرف سے انتخابات کی تاریخ میں تبدیلی اور پیپلز پارٹی کے بائیکاٹ کے بعد مبصرین کا کہنا ہے کہ اب نواز شریف کے منتخب کردہ امیدوار ممنون حسین کی جیت یقینی ہوگئی ہے۔