اسلام آباد —
حکمران اور حزب اختلاف کی جماعتوں کی پارلیمانی پارٹیوں کے پیر کو اسلام آباد میں علیحدہ علیحدہ اجلاس ہوئے جس میں صدارتی انتخابات سے متعلق حکمت عملی طے کی گئی۔
مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں کے مطابق اجلاس کی سربراہی کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے ہدایت کی کہ الیکشن کے روز اُن کی جماعت سے تعلق رکھنے والے تمام قانون سازوں کی پارلیمان میں موجودگی کو یقینی بنایا جائے، تاکہ کسی بھی طرح کی ’’غیر یقینی صورتحال‘‘ سے بچا جا سکے۔
دوسری جانب حزب اختلاف کی جماعت پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں نے اس دوران پارلیمان سے غیر حاضر رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مبصرین کے بقول عدالت عظمیٰ کی طرف سے صدارتی انتخاب کی تاریخ میں تبدیلی اور حزب اختلاف کی سب بڑی جماعت کی طرف سے انتخابات کے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد حکمران جماعت کے امیدوار ممنون حسین کو اپنے مخالف تحریک انصاف کے وجیہہ الدین احمد کے مقابلے میں واضح عددی برتری حاصل ہے۔
تاہم دونوں جماعتوں کی طرف سے سیاسی قائدین اور اراکین پارلیمان سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔
راولپنڈی میں اپنی رہائش گاہ پر تحریک انصاف کے امیدوار سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں سابق وفاقی وزیر اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کی طرح الیکشن سے بائیکاٹ ایک بہتر راستہ ہے۔
’’اسلام آباد میں پنجاب کے سارے افسران لا کر بیٹھا دیے ہیں اور سندھ سے تعلق رکھنے والے وزراٰء کہتے ہیں کہ سب کچھ ان کے اختیار میں جب کہ حکومت چند بڑے کاروباری حضرات کے کنٹرول میں ہے....ان سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔‘‘
پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں نے گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کی طرف سے مسلم لیگ (ن) کی درخواست پر انتخابات کی تاریخ میں تبدیلی کے ’’یک طرفہ‘‘ فیصلے پر اپنے صدارتی امیدوار کی دست برداری کا اعلان کردیا تھا۔ عمران خان نے بھی اس موقف کی تائید کی اور صدارتی انتخابات میں احتجاجاً شرکت کرنے کا فیصلہ کیا۔
نواز لیگ کی اتحادی سیاسی و مذہبی جماعت جمیعت علماء اسلام (ف) کے ترجمان جان اچکزئی کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ اس بائیکاٹ نے نا صرف صدارتی انتخابی عمل بلکہ اس میں حکومت کے امیدوار کو بھی سیاسی طور پر متنازع بنا دیا ہے۔
’’ہم نے مسلم لیگ (ن) کو کہا کہ ہم سے کیوں نہیں مشورہ کیا؟ ہم اس سے اچھا امیدوار آپ کو دے دیتے۔‘‘
جان اچکزئی نے اس بات کو خارج از امکان قرار دیا کہ ان کی جماعت کے قانون ساز مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی مخالفت میں ووٹ ڈالے گے۔
مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں کے مطابق اجلاس کی سربراہی کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے ہدایت کی کہ الیکشن کے روز اُن کی جماعت سے تعلق رکھنے والے تمام قانون سازوں کی پارلیمان میں موجودگی کو یقینی بنایا جائے، تاکہ کسی بھی طرح کی ’’غیر یقینی صورتحال‘‘ سے بچا جا سکے۔
دوسری جانب حزب اختلاف کی جماعت پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں نے اس دوران پارلیمان سے غیر حاضر رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مبصرین کے بقول عدالت عظمیٰ کی طرف سے صدارتی انتخاب کی تاریخ میں تبدیلی اور حزب اختلاف کی سب بڑی جماعت کی طرف سے انتخابات کے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد حکمران جماعت کے امیدوار ممنون حسین کو اپنے مخالف تحریک انصاف کے وجیہہ الدین احمد کے مقابلے میں واضح عددی برتری حاصل ہے۔
تاہم دونوں جماعتوں کی طرف سے سیاسی قائدین اور اراکین پارلیمان سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔
راولپنڈی میں اپنی رہائش گاہ پر تحریک انصاف کے امیدوار سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں سابق وفاقی وزیر اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کی طرح الیکشن سے بائیکاٹ ایک بہتر راستہ ہے۔
’’اسلام آباد میں پنجاب کے سارے افسران لا کر بیٹھا دیے ہیں اور سندھ سے تعلق رکھنے والے وزراٰء کہتے ہیں کہ سب کچھ ان کے اختیار میں جب کہ حکومت چند بڑے کاروباری حضرات کے کنٹرول میں ہے....ان سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔‘‘
پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں نے گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کی طرف سے مسلم لیگ (ن) کی درخواست پر انتخابات کی تاریخ میں تبدیلی کے ’’یک طرفہ‘‘ فیصلے پر اپنے صدارتی امیدوار کی دست برداری کا اعلان کردیا تھا۔ عمران خان نے بھی اس موقف کی تائید کی اور صدارتی انتخابات میں احتجاجاً شرکت کرنے کا فیصلہ کیا۔
نواز لیگ کی اتحادی سیاسی و مذہبی جماعت جمیعت علماء اسلام (ف) کے ترجمان جان اچکزئی کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ اس بائیکاٹ نے نا صرف صدارتی انتخابی عمل بلکہ اس میں حکومت کے امیدوار کو بھی سیاسی طور پر متنازع بنا دیا ہے۔
’’ہم نے مسلم لیگ (ن) کو کہا کہ ہم سے کیوں نہیں مشورہ کیا؟ ہم اس سے اچھا امیدوار آپ کو دے دیتے۔‘‘
جان اچکزئی نے اس بات کو خارج از امکان قرار دیا کہ ان کی جماعت کے قانون ساز مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی مخالفت میں ووٹ ڈالے گے۔