رسائی کے لنکس

’سخت گیر موقف اور سلامتی کے خدشات‘


پاکستان کے صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو 2011ء میں قتل کرنے کے مقدمے میں سزا یافتہ پولیس اہلکار ممتاز قادری کو 29 فروری 2016ء کو پھانسی دے دی گئی تھی۔

اب ایک سال بعد اسلام آباد کے مضافات میں بارہ کہو کے قریب پہاڑیوں کے دامن میں واقع اتھل گاؤں میں اُن کے مزار اور اس سے ملحقہ مسجد کی تعمیر اپنے آخری مراحل میں ہے۔

ممتاز قادری پنجاب کی ایلیٹ فورس کا اہلکار تھا اور وہ گورنر سلمان تاثیر کے سرکاری محافظوں میں شامل تھا، گورنر کے قتل کے بعد اپنے اعترافی بیان میں ممتاز قادری نے کہا تھا کہ اُس نے سلمان تاثیر کو اس لیے قتل کیا کیوں کہ اُنھوں نے توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کی حمایت کی تھی۔

حقوق انسانی کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں توہین مذہب کے قانون میں ترمیم کے لیے آواز بلند کرنے والوں کے لیے یقیناً یہ صورت حال باعث پریشانی ہے کہ جس شخص نے ایک گورنر کو قتل کیا اُسے اتنی پذیرائی مل رہی ہے۔

ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئرپرسن زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’بالکل حکومت نے کچھ نہیں کیا ہے اس کو روکنے کے لیے۔۔۔۔ اور قادری کے جنازے میں بھی آپ نے دیکھا تھا کتنے لوگ اسلام آباد پہنچے تھے، اُن کو روکنے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی گئی تھی۔‘‘

​زہرہ یوسف کہتی ہیں کہ انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والوں کے خلاف حکومت کو کارروائی کرنی چاہیئے۔

’’میرے خیال سے وزارت داخلہ کو واضح طور پر حوصلہ شکنی کی کوشش کرنی چاہیئے۔۔۔ مزار تو بن گیا ہے اس کو تو ظاہر ہے کہ کچھ نہیں کر سکتے مگر اس قسم کی جو لوگ سوچ رکھتے ہیں ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہیئے۔‘‘

ممتاز قادری کے والد ملک بشیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہتے ہیں کہ مزار کی تعمیر پر کسی طرف سے اُنھیں نہیں روکا گیا۔

’’نہیں کوئی رکاوٹ نہیں ہے یہ خود دیکھ لیں میں نے پہلے بتایا یہ اللہ کی مخلوق آ رہی ہے دن رات آ رہی ہے ۔۔۔۔ کسی قسم کی ہمیں کوئی رکاوٹ یا کسی قسم کی پریشانی نہیں ہے نا ہی حکومت کی طرف سے ہے نا ہی کوئی اور معاملات سے ہے۔‘‘

اُن کا کہنا تھا کہ اس مزار کی تعمیر میں اُنھوں نے کسی سے مالی مدد کی اپیل نہیں کی بلکہ لوگوں نے از خود رضاکارانہ طور پر اس کام میں مدد کی۔

’’نا تو کسی نے مدد کی ہے اور نا ہی ہم کسی سے مدد لینا چاہتے ہیں میں نے پہلے آپ سے عرض کی کہ یہ ایک چٹ پڑی ہوئی ہے یہ بھی میں رکھنے پر تیار نہیں تھا۔۔۔ میں نے علما اور قانون دانوں سے پہلے یہ مشورہ کیا (جس کے بعد ہم نے یہ رسید کی کاپی رکھی)۔‘‘

ممتاز قادری کے قریبی رشتہ دار ملک محمد ضمیر کہتے ہیں کہ روزانہ لگ بھگ چار ہزار لوگ ملک کے مختلف علاقوں سے مزار پر آتے ہیں۔

’’یہاں آنے والوں کی جو تعداد ہے ہم گنتی تو نہیں کرتے ایک اندازے کے طور پر تقریباً تین چار ہزار لوگوں کی آمد روز کی ہے۔‘‘

ممتاز قادری کے زیر تعمیر مزار کو جانے والے راستے پر کئی نئے چھوٹے ہوٹل کھل گئے ہیں جب کہ اس علاقے میں آمد و رفت کے سبب زمین کی قیمت میں گزشتہ ایک سال میں اضافہ ہوا ہے۔

تاہم قریبی آبادی کے افراد نے مزار کی تعمیر کے بارے میں اپنی رائے سے اجتناب کیا، لیکن راستے میں ملنے والے دکانداروں، ٹیکسی ڈرائیور اور سڑک کنارے قائم چھوٹے ہوٹل مالکان اور وہاں کام کرنے والوں کا کہنا تھا کہ جب سے ممتاز قادری کی تدفین ہوئی اس جانب آمد و رفت بڑھ گئی ہے۔

واضح رہے کہ یکم مارچ 2016ء کو ممتاز قادری کی نمازہ جنازہ راولپنڈی کے تاریخی لیاقت باغ میں ادا کی گئی جس میں دسیوں ہزاروں افراد نے شرکت کی تھی، جس کے بعد ایک بڑی تعداد نے اسلام آباد کی جانب رخ کر لیا اور پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دیا۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

یوں مظاہرین کے اسلام آباد میں داخلے اور پھر دھرنے پر حکومت کو تنقید کا بھی سامنا رہا۔

لیکن حالیہ مہینوں میں حکومت میں شامل عہدیداروں کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ملک میں امن و امان کو خراب کرنے والوں سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ جب کہ ممتاز قادری کی برسی کے موقع پر بھی مجوزہ ریلیوں کے انعقاد کو حکومت نے روک دیا تھا۔

پاکستان میں توہین مذہب کا معاملہ انتہائی حساس رہا ہے اور مروجہ قانون کے مطابق توہین مذہب کا ارتکاب کرنے والے کی سزا موت ہے۔

واضح رہے کہ ان دنوں ملک میں نئی بحث بھی جاری ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ پر مبینہ طور پر توہین مذہب مواد کی موجودگی کے بارے میں حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت صدیقی نے حکومت سے کہا تھا کہ وہ ایسے مواد تک رسائی کو فی الفور بند کرے۔

جب کہ ایک درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے یہ استدعا بھی کی گئی ہے کہ جب تک حکومت توہین آمیز مواد تک رسائی کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوتی ملک میں ’فیس بک‘ اور دیگر سوشل میڈیا تک رسائی کو بند کر دیا جائے۔

اس طرح کی ممکنہ پابندی پر انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ایسی کسی بھی قدغن کا ایک مقصد سوشل میڈیا پر اس بحث کو دبانے کی ایک کوشش بھی ہو سکتا جو کہ ملک کے اہم اداروں یا سیاسی اُمور کے بارے میں کی جاتی ہے۔

انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی صدف خان کہتی ہیں کہ ’’میرے خیال میں یہ جو ساری قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں وہ بڑی جائز بھی ہیں کیوں کہ تاریخ ہم نے دیکھی ہے کہ کسی ایک چیز کی آڑ میں، کسی دوسری چیز کو ہدف بنایا جا رہا ہوتا ہے۔۔۔۔ ظاہر ہے کہ ساری قیاس آرائیاں ہیں ہم حتمی طور پر نہیں کہہ سکتے ۔۔۔ لیکن یہ بالکل بلاوجہ بھی نہیں، ممکنہ ہے کہ یہ کوشش اصل میں سکیورٹی (نیریٹو) بیانے کو چیلنج کرنے والے مواد کو روکنے کے لیے کیا جا رہا ہو۔‘‘

توہین مذہب کے الزامات پر عدالتوں کی طرف سے کسی بھی قیدی کی سزائے موت پر عمل درآمد تو نہیں کیا گیا، لیکن ہیومین رائٹس کمیشن کے مطابق درجنوں افراد ایسے ہیں جنہیں محض اس الزام کے بعد لوگوں نے قتل کر دیا کہ اُنھوں نے مبینہ طور پر توہین مذہب کا ارتکاب کیا۔

XS
SM
MD
LG