مستونگ میں بس کے 22 مسافروں کی دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاکت پر سوگ اور اس واقعے کے خلاف احتجاج کے لیے اتوار کو بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں بھی مکمل شٹرڈاؤن ہڑتال رہی۔
اس واقعے پر لوگوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ واقعے کے ذمہ داران کو فوری گرفتار کر کے انھیں کیفر کردار تک پہنچائیں۔
جمعہ کو دیر گئے کوئٹہ سے کراچی جانے والی دو بسوں کو شدت پسندوں نے مستونگ کے علاقے میں روکا اور اس پر سوار مسافروں کو اپنے ساتھی قریبی پہاڑیوں میں لے جا کر ان کی شناخت معلوم کرنے کے ان میں غیر بلوچ قومیت کے لوگوں کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔
واقعے میں 22 افراد ہلاک ہوئے جن میں اکثریت کا تعلق پشتون قبائل سے تھا۔
اس واقعے پر صوبے میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا تھا جب کہ مختلف سیاسی جماعتوں کی اپیل پر شٹرڈاؤن ہڑتال کی گئی۔
تمام کاروباری مراکز اور چھوٹے بڑے بازار بند رہے جب کہ ٹریفک بھی معمول سے کم رہی۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ واقعے کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے کے علاوہ سڑک پر سفر کو محفوظ بنانے کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں تاکہ تشدد کے ایسے ہلاکت خیز واقعات سے بچا جا سکے۔
صوبائی وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ نے اس واقعے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر سیاسی قائدین سے مشاورت کے لیے دو جون کو تمام سیاسی جماعتوں کے اکابرین کو مدعو کر رکھا ہے۔
صوبائی وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ مستونگ کے علاقے میں سکیورٹی فورسز نے شدت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی شروع کر رکھی ہے جس میں اب تک 17 مشتبہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔
اس واقعے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم یونائیٹڈ بلوچ آرمی نے قبول کرتے ہوئے اسے گزشتہ ہفتے قلات اور مستونگ میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کا ردعمل قرار دیا تھا۔
صوبے میں ایک دہائی سے زائد عرصے سے متعدد گروپ زیادہ خودمختاری اور صوبے کے وسائل پر زیادہ اختیارات کے حصول کے لیے مسلح کارروائیاں کرتے آرہے ہیں۔
بعض گروپوں بشمول بلوچ ریپبلکن پارٹی کے سربراہ براہمداغ بگٹی کی طرف سے بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے صوبے میں بلوچ اور پشتون قبائل کو لڑانے کی سازش قرار دیا ہے۔
سینیئر تجزیہ کار امان اللہ شادیزئی کے مطابق تشدد کا یہ واقعہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پشتون قبائل کو بھی اس واقعے سے اشتعال دلانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ان کے خیال میں جس طرح صوبے کی تمام سیاسی و قوم پرست جماعتوں نے تدبر کا مظاہرہ کیا ہے اس سے صورتحال مزید خراب ہونے سے بچ گئی ہے۔