پاکستان نے ’ون چائنا‘ پالیسی کی توثیق کرتے ہوئے اس پالیسی کے لیے اپنے مضبوط عزم کا اعادہ کیا ہے۔پاکستان کا کہنا ہے کہ دنیا پہلے ہی یوکرین تنازعے کی وجہ سے سلامتی کی نازک صورتِ حال سے دوچار ہے, ایسے میں دنیا کسی نئے تنازعے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کا اس وقت بیان دینا غیر ضروری ہے۔بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ تعلقات ہیں اور ایسے میں پاکستان چین کے حق میں بیان دے کر گزشتہ کچھ عرصہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں موجود سردمہری کو ختم کرنا چاہتا ہے۔
خیال رہے کہ امریکی ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی نے تائیوان کے دورے کے دوران پارلیمنٹ سے خطاب کیا تھا جس پر چین نے شدید ردِعمل ظاہر کیا تھا۔ چین، تائیوان کو اپنا الگ ہونے والا حصہ سمجھتا ہے اور اسے بزور طاقتِ چین میں ضم کرنے کے ارادے کا اظہار کر چکا ہے۔
دوسری جانب گو کہ امریکہ 'ون چائنا' پالیسی کو تسلیم کرتا ہے، تاہم وہ تائیوان کی خود مختاری کی بات کرتا ہے اور اس کے ساتھ دفاعی شعبوں میں تعاون جاری رکھے ہوئے ہے۔
پاکستانیِ دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پاکستان چین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو آبنائے تائیوان میں پیدا ہونے والی صورتَ حال پر گہری تشویش ہے جس کے علاقائی امن و استحکام پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ دنیا پہلے ہی یوکرین کے تنازعے کی وجہ سے سلامتی کی ایک نازک صورتِ حال سے دوچار ہے لہذٰا دنیا ایک اورایسے بحران کی متحمل نہیں ہوسکتی جس کے عالمی امن، سلامتی اور معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہے کہ ریاستوں کے مابین تعلقات باہمی احترام، اندرونی معاملات میں عدم مداخلت اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون اور دو طرفہ معاہدوں کے اُصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے مسائل کے پرامن حل پر مبنی ہونے چاہئیں۔
پاکستان کی طرف سے تائیوان معاملہ پر پہلا بیان سامنے آیا ہے جس میں پاکستان نے 'ون چائنا' پالیسی کی حمایت کی ہے۔
کیا پاکستان کے اس بیان سے کوئی فرق پڑے گا؟
پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری کہتے ہیں کہ پاکستان ہمیشہ سے 'ون چائنا' پالیسی کی بات کرتا رہا ہے اور پوری دنیا کو پاکستان کی اس پالیسی کا علم ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ بھی 'ون چائنا' پالیسی کی ہی بات کرتا ہے، تائیوان تو اقوامِ متحدہ کا ممبر بھی نہیں ہے، سیاسی طور پر یہ معاملہ بگڑا ہے۔ لیکن پاکستان ہمیشہ سے ون چائنا پالیسی کا ساتھ دیتا آیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس موقع پر پاکستان کی طرف سے 'ون چائنا' پالیسی کے حق میں بیان دینے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ دنیا کے بہت سے ممالک اسی پالیسی کو اپنائے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ "اس پالیسی کی وجہ سے امریکہ سے کوئی ردِعمل آنے کا امکان نہیں ہے کیونکہ امریکہ کو پاکستان کی اس پالیسی کا عرصۂ دراز سے علم ہے۔ پاکستان نے صرف اپنی پرانی پالیسی کا اعادہ کیا ہے۔"
'پاکستان کو اس موقع پر بیان دینے کی ضرورت نہیں تھی'
تجزیہ کار نجم رفیق کہتے ہیں کہ پاکستان کو اس موقع پر بیان دینے کی ضرورت نہیں تھی، دفترِ خارجہ نے یہ بیان دیا ہے تو میرے خیال میں پاکستان اپنی پویشن کلئیر کرنا چاہتا ہے کہ چین کو ایک پیغام دیا جائے کہ تائیوان کی وجہ سے امریکہ کے ساتھ کشیدگی بڑھ رہی ہے اس میں وہ چین کے ساتھ ہے۔
نجم رفیق کے بقول سفارت کاری میں کوئی بھی پوزیشن مکمل طور پر کلیئر نہیں ہوتی، سی پیک کے حوالے سے چین، پاکستان تعلقات بہت اچھے نہیں اور چین کے بھی اس حوالے سے تحفظات ہیں۔ پاکستان چین کو اسٹرٹیجک پارٹنر کے طور پر دیکھتا ہے اور اسی مقصد کے لیے پاکستان نے یہ بیان دیا ہے۔
امریکہ کے حوالے سے نجم رفیق کے خیال میں امریکہ پاکستان کے بارے میں پہلے ہی موؐقف دے چکا ہے اور اس کا اصل اسٹرٹیجک پارٹنر جنوبی ایشیا میں بھارت ہے۔
نجم رفیق کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس بہت کچھ کھونے کو نہیں ہے پھر بھی آرمی چیف کی وینڈی شرمن کے درمیان بات چیت کے حوالے سے خبر آئی تھی کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے معاملے میں مدد کی درخواست کی تھی۔
اُن کے بقول ظاہر ہے پاکستان امریکہ کو ناراض نہیں کرنا چاہتا لیکن چین کے بارے میں یہ ایک سفارتی بیان ہے جس سے یہ تاثر نہیں ملتا کہ پاکستان، امریکہ کے خلاف ہے۔ سفارت میں ایسا چلتا رہتا ہے۔