رسائی کے لنکس

سی پیک پر امریکی وزیرِ دفاع کا بیان مسترد


ناصر خان جنجوعہ نے اپنے ردِ عمل میں کہا کہ ’’پاکستان اور چین 1960ء سے قراقرم ہائی وے کے ذریعے پہلے ہی سے زمینی رابطے میں ہیں، اب مُخالفت کیوں؟"

پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ناصر خان جنجوعہ نے چین پاکستان اقتصادی راہداری سے متعلق امریکہ کے وزیرِ دفاع جم میٹس کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’سی پیک پورے خطے اور دنیا کے لیے معاشی خوش حالی کا منصوبہ ہے۔‘‘

امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا کہ ’ون بیلٹ ون روڈ‘ کے تحت بننے والے 'سی پیک‘ کا ایک حصہ متنازع علاقے سے گزرتا ہے جو کسی نئے تنازع کو جنم دے سکتا ہے۔

ناصر خان جنجوعہ نے اپنے ردِ عمل میں کہا کہ ’’پاکستان اور چین 1960ء سے قراقرم ہائی وے کے ذریعے پہلے ہی سے زمینی رابطے میں ہیں، اب مُخالفت کیوں؟"

ایک بیان میں اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ مسئلہ کشمیر کو اقوام مُتحدہ کی قراردادوں کے مُطابق حل کرانے میں کردار ادا کرے۔

پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقے گلگت بلتستان میں 2009ء میں سیلف گورننس آرڈر کے تحت ایک قانون ساز اسمبلی قائم کی گئی تھی اور اب اس علاقے کے چیف ایگزیکٹو کا اختیار منتخب وزیر اعلیٰ کے پاس ہوتا ہے۔

جب کہ بھارت اور بعض کشمیری حلقے اس علاقے کو متنازع وادیٔ کشمیر ہی کا حصہ قرار دیتے ہیں۔

اس سے قبل پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بھی ’سی پیک‘ منصوبے سے متعلق امریکی وزیرِ دفاع کے بیان پر اپنے ردِ عمل میں کہا تھا کہ یہ منصوبہ خطے کی ترقی اور فلاح کے لیے ہے۔

جب کہ چین کی وزارت خارجہ نے بھی امریکی وزیرِ دفاع کے مؤقف کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ون بیلٹ ون روڈ‘ منصوبے کو اقوامِ متحدہ کی تائید حاصل ہے۔

پاکستان کی طرف سے یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ بھارت ’سی پیک‘ منصوبے کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے تاہم نئی دہلی ان الزامات کی سختی سے تردید کرتا رہا ہے۔

اربوں ڈالر مالیت کے اس منصوبے کے تحت چین کے شہر کاشغر سے پاکستان کے جنوب مغربی ساحلی شہر گوادر تک سڑکوں، ریل، بنیادی ڈھانچے، مواصلات اور صنعتوں کا جال بچھایا جانا ہے اور پاکستانی حکومت کے بقول یہ منصوبہ خطے میں امن و خوشحالی کا سبب بنے گا۔

XS
SM
MD
LG