رسائی کے لنکس

ترسیلاتِ زر میں کمی: ’حوالے کے ذریعے ڈالر 245 روپے کا خریدا جا رہا ہے‘


فائل فوٹو
فائل فوٹو

برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہونے کے بعد اب سمندر پار مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم میں مسلسل کمی کے باعث تجزیہ کار اور ماہرین پاکستان کے معاشی مسائل میں اضافے کے خدشات کا اظہار کررہے ہیں۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک جانب حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض کی دو اقساط ایک ساتھ حاصل کی جائیں جب کہ دوسری جانب دوست خلیجی ممالک کی جانب سے بھی ریاستی ملکیتی اداروں میں سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی فریقین میں اب تک کوئی سمجھوتا نہ ہونا حکومت کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔

اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال جون میں، جو پاکستان میں مالی سال 2022 کا آخری مہینہ تھا، مجموعی طور پر دو ارب 78 کروڑ ڈالر کی ترسیلاتِ زر سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سےارسال کی گئیں۔سال 2022 میں مجموعی طور پر سمندر پار سے 31 ارب 27 کروڑ ڈالر پاکستان بھیجے گئے جب کہ سال 2021 میں بھی 29 ارب 44 کروڑ ڈالر ترسیلات زر بھیجے گئے۔ لیکن رواں مالی سال 2023 کے چار ماہ یعنی جولائی سے اکتوبر میں اب تک 10 ارب 18 کروڑ ڈالر پاکستان منتقل کئے گئے اور ہر ماہ اس رقم میں مسلسل کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اکتوبر میں ترسیلات زر کم ہوکر دو ارب 21 کروڑ ڈالر رہ گئی ہیں۔

خیال رہے کہ ترسیلات زرِ پاکستان کے لیے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے حصول میں برآمدات اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے علاوہ تیسرا اہم ذریعہ ہے۔

معاشی ماہرین کے بقول موجودہ عالمی معاشی ماحول میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی طرح برآمدات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا نظر نہیں آ رہا جب کہ ترسیلات زر میں کمی ملک کے لیے دگرگوں معاشی حالات میں مزید پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔

’گرے مارکیٹ زیادہ ترقی کرگئی ہے‘

وزارتِ خزانہ میں سابق مشیر ڈاکٹر خاقان حسن نجیب کا کہنا ہے کہ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی قیمت میں بڑا فرق لوگوں کو ڈالر فروخت کرنے کے لیے غیر رسمی چینلز کی طرف دھکیل رہا ہے اور اس سے حکام کے ان غیر قانونی راستوں کے پیچھے جانے کے عزم کمزور ہونا بھی ظاہر ہوتا ہے۔

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری محمد ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر ریٹ میں فرق زیادہ ہونے کی وجہ گرے مارکیٹ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ان دنوں گرے مارکیٹ زیادہ ترقی کرگئی ہے۔

ان کے خیال میں اس کی وجہ پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے متعارف کرائی گئی بعض نئی پالیسیاں ہیں۔

پاکستان کے معاشی مسائل: نئی حکومت کیسے نمٹے گی؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:43 0:00

ظفر پراچہ کے مطابق افغانستان میں برسرِ اقتدار حکومت نے پانچ لاکھ یا اس سے زائد پاکستانی روپے رکھنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان میں پڑا ہوا روپیہ امریکی ڈالر یا دیگر کرنسیوں میں تبدیل ہورہا ہے اور اس کا دباؤ پاکستان میں غیر ملکی کرنسیوں کی قیمتوں میں دباؤ کی صورت میں نکل رہا ہے اور اسمگلنگ بھی خوب ہو رہی ہے۔

حوالہ کے ذریعے رقم کی منتقلی

ان کے مطابق دوسری جانب بڑھتی ہوئی گرے مارکیٹ سے حوالے کے ذریعے رقم بھجوانے کے غیر قانونی طریقۂ کار پر تیزی سے عمل درآمد جاری ہے اور حوالے سے اس وقت ایک امریکی ڈالر کے بدلے میں 240 سے 245 پاکستانی روپے مل رہے ہیں جب کہ دوسری جانب منی ٹرانسفر کمپنیاں جیسے ویسٹرن یونین اور منی گرام وغیرہ، ان کے ذریعے جو پیسے بھیجے جاتے ہیں اس کے لیے صارف کو 215 پاکستانی روپے کا ریٹ آفر کرتے ہیں، جس کے بعد اس پر چارجز بھی لاگو ہوتے ہیں، یوں یہ ریٹ ایک ڈالر کے عوض تقریبا 210 پاکستانی روپے پر ملتا ہے۔

ان کے بقول اب ظاہر ہے کہ بیرونِ ملک مقیم عام پاکستانی منی ٹرانسفر کمپنیوں یا انٹر بینک کے بجائے حوالے کے ذریعے رقم منتقلی کو کیوں فوقیت نہیں دے گا؟ یہ تمام عناصر مل کر ملک میں قانونی طریقے سے ترسیلات زر میں کمی کا موجب بن رہے ہیں جب کہ حوالے کا کاروبار بڑھتا چلا جا رہا ہے۔

پالیسی میں تبدیلی پر زور

مبصرین کا کہنا ہے کہ صورتِ حال کی بہتری کے لیے پاکستان کو افغانستان اور ایران جیسے پڑوسی ممالک سے اپنی امیگریشن اور تجارتی پالیسی کو بہتر خطوط پر استوار کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ پاکستان سے غیر ملکی زرِ مبادلہ کی اسمگلنگ ، حوالے کے کاروبار کی حوصلہ شکنی ہو اور ملک کا ریونیو کی مد میں نقصان بند کیا جاسکے اور دوسری جانب منی ٹرانسفر کمپنیوں کو بھی اس پر قائل کرنا ہوگا کہ وہ پاکستان رقم منتقلی کے لیے بہتر ریٹ دیں۔

وزارتِ خزانہ کے سابق مشیر خاقان حسن نجیب کا کہنا ہے کہ عالمی معاشی حالات میں سست روی اور ترقی یافتہ ممالک میں سود کی بلند رقم کی وجہ سے وہاں سرمایہ کاری زیادہ پرکشش ہوئی ہے، جس کی وجہ سے بعض بیرونِ ملک مقیم پاکستانی رقم وطن بھیجنے کے بجائے وہیں، سرمایہ لگانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے بھی ترسیلاتِ زر کی آمد میں کمی واقع ہوئی ہے۔

دوست ممالک سے مالی معاونت کا انتظار

نہ صرف یہ بلکہ دوسری جانب پاکستان اب بھی دوست خلیجی ممالک کی جانب سے وعدہ کے مطابق مالی امداد کا انتظار کر رہا ہے اور اس کو ممکن بنانے کے لیے وزیرِ اعظم شہباز شریف کے مئی میں دورے کے بعد وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے بھی متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا تاکہ وہاں کی حکومت کو اس پر قائل کیا جاسکے۔

وزارت خزانہ کے ترجمان کے مطابق وفاقی وزیرِ خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے دبئی میں اپنے دورے کے دوران معروف کمرشل بینکوں کی انتظامیہ کے ساتھ ملاقاتیں کی ہیں، جن میں دبئی اسلامک بینک، عجمان بینک اور دیگر شامل ہیں۔

سرکاری حکام کے مطابق کمرشل بینکوں نے حکومت کی موجودہ معاشی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اور پاکستان کے لیے اپنی حمایت جاری رکھنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

تاہم متحدہ عرب امارات اور قطر کی حکومتوں کی جانب سے اس بار پاکستان کے ریاستی ملکیتی اداروں میں سرمایہ کاری یعنی شئیرز خریدنے کے تحت مالی امداد پر اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ اس کی را ہموار کرنے کے لیے حکومت نے پارلیمان میں انٹر گورنمینٹل ٹرانزیکشن ایکٹ 2022 متعارف کرایا تھا لیکن اب تک حکومت اس بل کو منظور کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے اور اس کی ایک وجہ خود حکومتی جماعت مسلم لیگ (ن) میں اختلافات بتائی جارہی ہے۔

آ ئی ایم ایف سے مذاکرات ملتوی

دوسری جانب آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان مذاکرات نومبر کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کر دیے گئے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب سے متوقع لگ بھگ دو ارب ڈالر حاصل کرنے کے لیے مزید انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔

پاکستان کے سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے یہ توقع ظاہر کی تھی کہ سیلاب سے متاثر ہونے کے باعث بین الاقوامی مالیاتی فنڈ پاکستان سے قرض کی دو اقساط ایک ساتھ لینے پر بات چیت کی گئی ہے تاہم اب تک اس حوالے سے کوئی ٹھوس پیش رفت نظر نہیں آتی۔

ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اس وقت 31 ارب ڈالر کی رقم کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہمیں موجودہ بحران پر قابو پانے کے لیے چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات جیسے ممالک اور دیگر مالیاتی ادروں سے قرضوں کو ری شیڈول کرنے، مقررہ وقت پر ری فنانسنگ، سیلاب متاثرین کے لیے رقم حاصل کرنے پر توجہ دینا ہوگی جب کہ ملک میں جاری ترقیاتی اسکیموں پر کام کی رفتار کو بڑھانے کے ساتھ جاری کھاتوں کے خساروں کو تقریباً 10 ارب ڈالر تک محدود رکھنے کو یقینی بنانا چاہیے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG