اسلام آباد —
صوبہ بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں حال ہی میں ہونے والے شدت پسندوں کے مہلک حملوں کے بعد مسلم لیگ (ن) کی نو منتخب حکومت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ’’نئی حکمت عملی‘‘ تیار کرنے پر کام شروع کر دیا ہے۔
اسی سلسلے میں جمعرات کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا، جس میں سیکورٹی ایجنسیوں اور دیگر متعلقہ محکموں کے سربراہان نے شرکت کی۔
اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں وزیر داخلہ نے بتایا کہ ایک ٹاسک فورس بنائی گئی ہے جس کا مقصد ملک کی مختلف انٹیلی جنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین شدت پسندی سے متعلق معلومات کے تبادلہ کے نظام کو موثر و فعال بنانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام سکیورٹی کے اداروں کے سربراہان کو ہدایت دی گئی ہے کہ نئی قومی سلامتی کی پالیسی کے لیے سفارشات دو دن میں پیش کریں۔
چوہدری نثار نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی اداروں اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے درمیان معلومات کے تبادلہ کے ’’سنگین فقدان‘‘ کی وجہ سے شدت پسندی کے خلاف جنگ متاثر ہو رہی ہے۔
’’ایک عرصہ گزر گیا ہے کہ پاکستان ان مشکلات سے گزر رہا ہے۔ ایک بعد ایک سانحہ ہوا مگر آپ کو حیرانگی ہو گی کہ ہم کسی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔‘‘
وزیر داخلہ نے کہا کہ اہم شخصیات کی حفاظت کے لیے تعینات رینجرز اور ایف سی کے اہلکاروں کو فوراً ہٹایا جا رہا ہے تاکہ ان کی خدمات انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال کی جا سکیں۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ وہ قومی سلامتی کی پالیسی کے بارے میں پاکستان افواج کے عہدیداروں سے بھی ملاقاتیں کریں گے تاہم ان نے بتایا کہ نئی حکمت عملی کی تیاری کے لیے وزیراعظم نے ایک ٹیم بنا دی ہے جو کہ اس بارے تمام اداروں اور فریقین سے مشاورت کر کے پالیسی کو بہت جلد حتمی شکل دے گی۔
وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ نئی بننے والی قومی سلامتی کی پالیسی سے متعلق موجودہ حکومت کو پاکستانی فوج سمیت تمام سلامتی کے اداروں کی جانب سے مکمل حمایت حاصل ہے۔
ملک کی پارلیمان میں بھی حالیہ شدت پسندی کے واقعات کی پر زور مذمت کرتے ہوئے، قانون سازوں نے موجودہ حکومت سے ملک میں گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری دہشت گردی کے مسئلے کے حل کے لیے ایک مربوط پالیسی کے تحت موثر اور فعال اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ایوان زیریں میں اپنی پہلی تقریری میں اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا ’’میں سمجھتا ہوں کہ وقت آگیا ہے کہ دہشت گردی سے ہمیں بحیثیت قوم لڑنا چاہیے۔ اگر ہم نے (ایسا) نا کیا تو آپ بھول جائیں اقتصادی ترقی اور (ملک میں) سرمایہ کاری۔ خیبر پختوخواہ میں تو یہ حال ہے کہ وہاں تو صرف اغواء کاری ہی کا کاروبار بڑھ رہا ہے باقی تو کوئی کاروبار ہی نہیں۔‘‘
شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی مخلوط حکومت قائم ہے 11 مئی کے انتخابات کے بعد خیبرپختونخواہ میں دو صوبائی اراکین اسمبلی سمیت درجنوں افراد شدت پسندوں کی کارروائیوں میں مارے جا چکے ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں گزشتہ ایک دہائی میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت 40 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ادھر فوج کے انٹیلی جنس کے ادارے ’آئی ایس آئی‘ کے سربراہ لیفٹینٹ جنرل محمد ظہیرالاسلام نے وزیراعظم میاں نواز شریف سے جمعرات کو ملاقات کی جس میں قومی سلامتی اور علاقائی استحکام سے متعلق امور زیر بحث آئے۔
اسی سلسلے میں جمعرات کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا، جس میں سیکورٹی ایجنسیوں اور دیگر متعلقہ محکموں کے سربراہان نے شرکت کی۔
اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں وزیر داخلہ نے بتایا کہ ایک ٹاسک فورس بنائی گئی ہے جس کا مقصد ملک کی مختلف انٹیلی جنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین شدت پسندی سے متعلق معلومات کے تبادلہ کے نظام کو موثر و فعال بنانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام سکیورٹی کے اداروں کے سربراہان کو ہدایت دی گئی ہے کہ نئی قومی سلامتی کی پالیسی کے لیے سفارشات دو دن میں پیش کریں۔
چوہدری نثار نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی اداروں اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے درمیان معلومات کے تبادلہ کے ’’سنگین فقدان‘‘ کی وجہ سے شدت پسندی کے خلاف جنگ متاثر ہو رہی ہے۔
’’ایک عرصہ گزر گیا ہے کہ پاکستان ان مشکلات سے گزر رہا ہے۔ ایک بعد ایک سانحہ ہوا مگر آپ کو حیرانگی ہو گی کہ ہم کسی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔‘‘
وزیر داخلہ نے کہا کہ اہم شخصیات کی حفاظت کے لیے تعینات رینجرز اور ایف سی کے اہلکاروں کو فوراً ہٹایا جا رہا ہے تاکہ ان کی خدمات انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال کی جا سکیں۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ وہ قومی سلامتی کی پالیسی کے بارے میں پاکستان افواج کے عہدیداروں سے بھی ملاقاتیں کریں گے تاہم ان نے بتایا کہ نئی حکمت عملی کی تیاری کے لیے وزیراعظم نے ایک ٹیم بنا دی ہے جو کہ اس بارے تمام اداروں اور فریقین سے مشاورت کر کے پالیسی کو بہت جلد حتمی شکل دے گی۔
وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ نئی بننے والی قومی سلامتی کی پالیسی سے متعلق موجودہ حکومت کو پاکستانی فوج سمیت تمام سلامتی کے اداروں کی جانب سے مکمل حمایت حاصل ہے۔
ملک کی پارلیمان میں بھی حالیہ شدت پسندی کے واقعات کی پر زور مذمت کرتے ہوئے، قانون سازوں نے موجودہ حکومت سے ملک میں گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری دہشت گردی کے مسئلے کے حل کے لیے ایک مربوط پالیسی کے تحت موثر اور فعال اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ایوان زیریں میں اپنی پہلی تقریری میں اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا ’’میں سمجھتا ہوں کہ وقت آگیا ہے کہ دہشت گردی سے ہمیں بحیثیت قوم لڑنا چاہیے۔ اگر ہم نے (ایسا) نا کیا تو آپ بھول جائیں اقتصادی ترقی اور (ملک میں) سرمایہ کاری۔ خیبر پختوخواہ میں تو یہ حال ہے کہ وہاں تو صرف اغواء کاری ہی کا کاروبار بڑھ رہا ہے باقی تو کوئی کاروبار ہی نہیں۔‘‘
شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی مخلوط حکومت قائم ہے 11 مئی کے انتخابات کے بعد خیبرپختونخواہ میں دو صوبائی اراکین اسمبلی سمیت درجنوں افراد شدت پسندوں کی کارروائیوں میں مارے جا چکے ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں گزشتہ ایک دہائی میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت 40 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ادھر فوج کے انٹیلی جنس کے ادارے ’آئی ایس آئی‘ کے سربراہ لیفٹینٹ جنرل محمد ظہیرالاسلام نے وزیراعظم میاں نواز شریف سے جمعرات کو ملاقات کی جس میں قومی سلامتی اور علاقائی استحکام سے متعلق امور زیر بحث آئے۔