پاکستان میں ایک جانب روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قدر میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔ تو دوسری جانب تین سال کے بعد رواں ہفتے پہلی بار عالمی مارکیٹ میں اڑھائی ارب ڈالرز مالیت کے یورو بانڈز فروخت کے لیے پیش کیے گئے ہیں۔
اس بار پیش کیے گئے بانڈز تین مختلف اقسام کے ہیں جن میں پانچ سال، 10 سال اور 30 سال کی مدت کے لیے بانڈز شامل ہیں۔
حکومت پاکستان نے 50 کروڑ ڈالرز مالیت کے بانڈز 30 سال کے لیے جاری کیے ہیں۔ جب کہ پانچ اور 10 سالہ سرمایہ کاری کے لیے ایک ارب ڈالرز مالیت کے بانڈز جاری کیے گئے ہیں اور ان پر عالمی سرمایہ کاروں کو پانچ سال سرمایہ کاری کرنے پر چھ فی صد، 10 سال کے لیے سرمایہ کاری پر 7.37 فی صد جب کہ 30 سال کی سرمایہ کاری پر 7.87 فی صد منافع دیا جائے گا۔
پاکستان نے اس سے قبل دسمبر 2017 میں بھی اڑھائی ارب ڈالرز کے یورو اور سُکوک بانڈز جاری کیے تھے۔
پاکستان کی بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ زیادہ بہتر نہ ہونے کے باوجود ان بانڈز کی خریداری میں سرمایہ کاروں نے گہری دلچسپی ظاہر کی اور حکام کے مطابق اڑھائی ارب ڈالرز کے بانڈز پر 5.3 ارب ڈالرز کی بولیاں موصول ہوئی ہیں۔
پاکستان کو بانڈز کے اجرا کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟
دنیا کے کئی دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے مختلف حکمتِ عملی اپناتا ہے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کئی دیگر اداروں سے قرض کے حصول کے علاوہ عالمی مارکیٹ میں بانڈز کا اجراء بھی کرتا ہے۔
ماہرِ معاشیات سمیع اللہ طارق کا کہنا ہے کہ حکومت اپنا تجارتی خسارہ پورا کرنے، پرانے قرضوں کی ادائیگی کرنے اور پھر دیگر وجوہات کے باعث مختلف ذرائع سے پیسہ لیتی ہے۔ جس میں کچھ پیسے اپنے دوست ممالک سے قرضے کی صورت میں لیے جاتے ہیں۔ کچھ آئی ایم ایف سے لیے گئے اور کچھ بانڈز جاری کرکے پیسے حاصل کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس عمل سے پچھلے قرضے اتارے جاتے ہیں اور کچھ دیگر ادائیگیوں کے توازن میں استعمال ہوتے ہیں۔
پاکستان نے یورو بانڈز کے اجرا سے کچھ پیسے اکھٹے کیے ہیں اور کچھ آنے والے دنوں میں سُکوک بانڈز کے ذریعے حاصل کرنے کا منصوبہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان، ترکی اور ارجنٹائن جیسے ممالک کی کرنسی کی وہ وقعت نہیں جو گلوبل ریزرو کرنسیز کی ہوتی ہے۔ اس لیے انہیں غیر ملکی کرنسیوں میں بانڈز کا اجرا کرکے رقم جمع کرنی پڑتی ہے۔
سابق وزیرِ خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے ساتھ قرضے کی 50 کروڑ ڈالرز کی اگلی قسط کرونا وبا کی وجہ سے نہیں مل پائی تھی اور رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران قرضے کی مد میں ملک کو 24 فی صد کم پیسہ ملا۔ جو کم و بیش اڑھائی ارب ڈالرز کی رقم ہی بنتی ہے۔ ایسی صورت میں ان کے بقول حکومت پر قرضوں کی واپسی اور دیگر واجبات کی ادائیگی کا سنگین بوجھ تھا۔
حفیظ پاشا کا کہنا تھا کہ اس لیے پاکستان نے پہلے ہی یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ بانڈز کے اجرا کے ذریعے فوری رقم کا حصول ممکن بنائے گا تاکہ ادائیگیوں کے توازن کو برقرار رکھا جا سکے۔
'پاکستان کو بانڈز پر منافعے کی شرح زیادہ دینی پڑی'
حفیظ پاشا نے کہا کہ حکومت کی جانب سے جاری کردہ بانڈز کا اوسط منافع 7.1 فی صد بنتا ہے۔ جو اُن کے خیال میں زیادہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی معاشی حالت چوں کہ بہت زیادہ اچھی نہیں ہے اور ہم ایک مشکل معاشی صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ اس لیے ہمیں دنیا بھر کی مقبول ریٹنگ ایجنسیز نے اوسط درجے سے بھی کم کی ریٹنگ دے رکھی ہے۔ اس کے نتیجے میں ان بانڈز پر ہمیں رسک پریمیئم دینا پڑا ہے۔ یعنی ہمیں زیادہ منافع دینا پڑا تاکہ سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کی ترغیب دی جاسکے۔
حفیظ پاشا کے خیال میں ان بانڈز پر منافع کی شرح ساڑھے چار سے پانچ فی صد کے درمیان ہونی چاہیے تھی۔ لیکن پاکستان نے زیادہ منافع مقرر کیا ہے۔
آخر اس سے پاکستان کی معیشت کو فائدہ کیا ہوگا؟
سمیع اللہ طارق کے خیال میں بانڈز کے اجرا سے معیشت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد بڑھتا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کی معیشت ٹھیک سمت کی جانب گامزن ہے۔ جب کوئی سرمایہ کار یہاں کے بانڈز خریدنے کے لیے آگے آئے گا، حکومت کی پالیسیوں کا مطالعہ کرے گا تو اسے ملک میں براہ راست سرمایہ کاری کی بھی ترغیب ملتی ہے۔
حفیظ پاشا کے خیال میں اس میں سب سے بہتر بات تو یہ ہے کہ پاکستان کو یہ پیسے پانچ سے 30 سال کے عرصے میں واپس کرنے ہیں۔ ان کے بقول اس کے برعکس اگر حکومت کمرشل بینکوں مثال کے طور پر کسی چینی یا امریکی کمرشل بینک سے قرضہ لیتی تو بمشکل تین سال کا قرضہ ملتا اور وہ بھی بلند شرح سود کے ساتھ ہمیں ہر ماہ قرضے کی اقساط کی صورت میں واپس کرنے ہوتے۔ اس لیے لیکویڈیٹی کے لحاظ سے بانڈز سے حاصل شدہ قرضہ بہت بہتر ہے۔
عام آدمی کی معاشی حالت پر کیا فرق پڑے گا؟
سمیع اللہ طارق کے خیال میں جب سرمایہ کاروں میں اعتماد آتا ہے تو اس سے ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں بہتری نظر آتی ہے۔ جو تین ماہ میں چار فی صد بڑھا ہوا ہے اور بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی کرنسی براعظم ایشیا میں اس وقت واحد کرنسی ہے جو ڈالر کے مقابلے میں مضبوط ہوئی ہے۔ تو پھر اس کا اثر روز مرہ کی قیمتوں کی اشیا پر بھی پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجلی، تیل، خورنی تیل، دالیں اور کھانے پینے کی کئی اشیا کی قیمتوں کا براہِ راست تعلق ڈالر سے ہے۔ اگر پاکستانی روپیہ مضبوط اور ڈالر کی قیمت کم ہو گی تو ان کی اشیا کی قیمتیں کم یا مستحکم رہتی ہیں۔
حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ اگر ملک میں غیر ملکی زرِ مبادلہ کی آمد کم ہو جائے تو نتیجے کے طور پر آنے والے دنوں میں ہمارے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر پر اس کا اثر پڑتا۔ جو آئی ایم ایف اور پھر بانڈز کے اجرا سے ملنے والی رقم کے باعث نہیں پڑے گا۔ اور پھر اس کا اثر لامحالہ طور پر ہماری کرنسی کی قدر کم ہونے کی صورت میں پڑتا اور جب روپے کی قدر گرے گی تو باہر سے منگوائی گئی اشیا کی قیمتیں بڑھتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہم بہت سی کھانے پینے کی اشیا باہر سے منگواتے ہیں جن میں خورنی تیل، سبزیاں، دالیں، مصالحے اور اب تو گندم اور چینی بھی باہر سے لائی جا رہی ہے۔ اگر حکومت بانڈز کے ذریعے یہ رقم حاصل نہ کرتی جو کہ ایک قرض ہی ہے اور ایک دن واپس تو کرنا ہے۔ تو یقیناََ اس کا اثر ہمارے کم ہوتے ہوئے زرِ مبادلہ کے ذخائر پر پڑتا اور پھر غذائی اشیا مزید مہنگی ہوتیں۔
پاکستانی معیشت قرضے کے چُنگل سے کیسے نکلے گی؟
اس سوال پر حفیظ پاشا کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک پر قرضوں کا کُل حجم لگ بھگ 115 ارب امریکی ڈالرز ہے۔ جو ہماری معیشت کا تقریباََ 45 فی صد ہے۔ جب کہ بنگلہ دیش اور ہندوستان کا قرضوں کا بوجھ ان کی معیشتوں کا 18 فی صد کے لگ بھگ ہے اور ظاہر ہے کہ ہمارا بوجھ کافی زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک ہماری برآمدات میں نمایاں طور پر اضافہ نہیں ہوتا اور آئندہ تین چار سال میں برآمدات دگنی نہ ہو جائیں تو اس وقت تک ہمیں قرضے ہی لینے پڑتے رہیں گے۔
ان کے بقول انہیں خدشہ ہے کہ یہ بوجھ بڑھتا جائے گا۔ پریشانی بڑھتی جائے گی۔ کم نہیں ہوگی۔ اس وقت ایسی کوئی تدبیر نظر نہیں آتی کہ پاکستان اس چنگل سے نکل آئے گا بلکہ پھنسا رہے گا۔