رسائی کے لنکس

پاکستان میں خودکشیوں اور احتجاج میں شدت


پاکستان میں خودکشیوں اور احتجاج میں شدت
پاکستان میں خودکشیوں اور احتجاج میں شدت

اقتصادی ماہرین حکومت کو درپیش سنگین مالی مسائل کا اعتراف کرتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ اگر صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نا کیے گئے تو عام لوگوں میں بے چینی اور غصہ بڑھتارہےگا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کے اکثر حصوں میں بجلی کی لوڈ شڈنگ کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے بعد اب حکومت کی طرف سے سردی کے موسم میں قدرتی گیس کی بندش کے اشارے آنے والے دنوں میں حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ کرسکتے ہیں۔

انسانی حقوق کی علمبردار ملک کی ایک بڑی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بدھ کو جاری کیے گئے ایک بیان میں غربت اور بے بسی سے تنگ آکر خودکشی کرنے کے واقعات میں اضافے اور حکومت کی جانب سے واقعات پر عدم توجہ پر شدید صدمے کا اظہار کیا ہے۔

خود سوزی کا تازہ واقعہ اس ہفتے دارالحکومت اسلام آباد میں پارلیمان کی عمارت کے عین سامنے پیش آیا جب سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے غربت سے تنگ آ کر خود کو تیل چھٹرک کرآگ لگا لی اور اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ چند روز قبل گوجرانوالہ میں بھی ایک شخص نے اطلاعات کے مطابق مالی پریشانیوں سے تنگ آکر اپنے والدین اور بہن بھائیوں اور پھرخود کو بھی گولی مار کر ختم کر لیا۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں خودکشی کرنے والےنوشیرو فیروز کے راجا خان سمیت اس سال ملک میں اب تک 1600 افراد حالات سے مایوس ہو کر خودکشی کرچکے ہیں۔ جبکہ خودکشی کی ناکام کوشش کرنے والے 800 افراد اس کے علاوہ ہیں۔

معاشی مسائل کے باعث ملک کے مختلف سرکاری اداروں بشمول ریلوے، اسٹیل ملز، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کو سخت مالی بحران کا سامنا ہے اورفنڈز کی کمی کے باعث خصوصاََ ریلوے ملازمین کو وقت پر تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی ایک بڑا مسئلہ بنتا جارہے۔ بدھ کو لاہور میں ریلوے ہیڈکوارٹر کے باہر ایک افسوس ناک واقعہ اُس وقت پیش آیا جب پنشن حاصل کرنے کے انتظار میں بینک کے باہر کھڑے کھڑے ایک عمر رسیدہ شخص دم توڑ گیا۔

زہر یوسف
زہر یوسف

غیر سرکاری ادارے ایچ آر سی پی کی سربراہ زہرہ یوسف کے بقول ایک طرف تو دہشت گرد اور جرائم پیش افراد لوگوں کو ہلاک کررہے ہیں تو دوسری طرف غربت اور مایوسی سے لوگوں میں جینے کی خواہش کم ہوتی جارہی ہے۔ انھوں نے لاہور میں پنشن کے انتظار میں کھڑے شخص کی موت پر بھی حکام کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سربراہ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ حالات کو بہتر کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرے۔

اقتصادی ماہرین حکومت کو درپیش سنگین مالی مسائل کا اعتراف کرتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ اگر صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نا کیے گئے تو عام لوگوں میں بے چینی اور غصہ بڑھتارہےگا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کے اکثر حصوں میں بجلی کی لوڈ شڈنگ کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے بعد اب حکومت کی طرف سے سردی کے موسم میں قدرتی گیس کی بندش کے اشارے آنے والے دنوں میں حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ کرسکتے ہیں۔

اس امکان کا اندازہ گیلپ پاکستان کے حالیہ سروے سے بھی لگایا جاسکتا ہے جس کے مطابق 53 فیصد پاکستانیوں نے بجلی کی کمی اور لوڈشیڈنگ کے خلاف سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے کی حمایت کی ہے۔

ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ معاشی شرح نمو کم ہوئی ہے مہنگائی بڑھی ہے جس کے وجہ سے لوگوں کی قوت خرید کم ہو گئی اور ملک میں غربت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

’’جب تک معاشی سرگرمی سست ہو گی لوگوں کو نوکری ملنے کے مواقع بھی کم ہوں گے۔ اور اگر ایک بار کسی وجہ سے کوئی شخص بے روزگار ہو گیا تو نوکری دوبارہ نہیں ملتی جب تک معاشی مسائل حل نہ ہوں گے یہ چیزیں ہوتی رہیں گی۔ ‘‘

موجودہ پاکستانی حکومت نے غربت دور کرنے کے لیے مختلف منصوبے شروع کررکھے ہیں جن میں بے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام قابل ذکر ہے۔ لیکن اقتصادی شرح نمو میں کمی افراط زر، امن وامان برقرار رکھنے کے لیے حکومت کے غیرمعمولی اخراجات اور دہشت گردی کے واقعات کے معیشت پر منفی اثرات کے باعث حکومت کے لیے عام آدمی کے مسائل کو فوری طور پر حل کرنا ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔

XS
SM
MD
LG