اسلام آباد —
طالبان شدت پسندوں سے امن مذاکرات میں تقریباً ایک ماہ سے مسلسل تعطل اور قبائلی علاقوں میں حکام کے بقول کامیاب فوجی کارروائیوں کے بعد بات چیت کے عمل سے متعلق ذرائع ابلاغ اور دیگر حلقوں چہ مگوئیاں شروع ہو گئی ہیں۔
خود طالبان کے نامزد کردہ ثالث بھی الزام لگا رہے ہیں کہ حکومت بظاہر اب مذاکرات جاری رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتی اور ان کی متعدد کوششوں کے باوجود تعطل کے شکار عمل کو بحال کرنے میں پیش رفت نہیں کی جا رہی۔
وائس آف امریکہ سے اتوار کو گفتگو کرتے ہوئے طالبان کے مقرر کردہ ثالث مولانا محمد یوسف شاہ کا کچھ یوں کہنا تھا۔
’’عملی طور پر تو انہوں (حکومت) نے جنگ شروع کی ہے اور ہمیں معلوم نہیں کہ وہ مذاکرات کس کے ساتھ کر رہے ہیں۔ ہمارے علم میں تو کچھ نہیں ہے۔ باقی ان کے عزائم و رائے ہمیں معلوم نہیں ہیں۔‘‘
تاہم گزشتہ روز ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی خبر کی سخت الفاظ میں تردید کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت نے مذاکراتی عمل ختم کرنے اور شمالی وزیرستان میں بھرپور فوجی آپریشن شروع کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
حکومت میں شامل سینیئر عہدیدار کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کے کچھ گروہ بات چیت کے حامی ہیں جن سے مذاکرات کیے جائیں گے تاہم تشدد کی کارروائیوں پر مُصر دھڑوں کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔
حکومت اور کالعدم عسکریت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان فروری میں شروع ہونے والے امن مذاکرات ایک ہی ماہ بعد اس وقت معطل ہوگئے جب فائر بندی میں توسیع نا کرتے ہوئے شدت پسندوں کی طرف سے الزامات سامنے آئے کہ ان کے ساتھیوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔
جس کے بعد سے اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف حصوں میں شدت پسندوں کی طرف سے مہلک کارروائیاں بھی دیکھنے میں آئیں۔
حال ہی میں القاعدہ سے منسلک عسکریت پسندوں کے گڑھ شمالی وزیرستان میں بدھ کو ایک فضائی کارروائی جس میں پانچ غیر ملکی جنگجو کمانڈروں سمیت 71 سے زائد شدت پسند مارے گئے۔
دفاعی تجزیہ کار حسن عسکری رضوی طالبان مذاکرات اور موجودہ سکیورٹی خدشات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’مسئلہ یہ ہے کہ حکومت نظریاتی طور پر فوج کو آپریشن شروع کرنے کا کہنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ فوج اس نتیجے پر پہنچ گئی ہے کہ کارروائی کرنی ہے اور وہ محدود کارراوئیاں کر رہی ہے۔ 2015ء میں پاکستان کے مسائل بڑھ جائیں گے کیونکہ جب افغان طالبان اپنا زور دکھائیں گے تو یہاں والے بھی مضبوط ہو جائیں گے اور بیشتر قبائلی علاقہ پاکستان اور افغان طالبان لینڈ بن جائے گا تو اس وقت اسے کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا۔‘‘
بعض سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان میں شدت پسندوں کا مسئلہ رواں سال کے اواخر تک افغانستان میں غیر ملکی افواج کے انخلا سے پہلے پہلے حل کرنے کا منصوبہ ہے تاکہ انخلا سے پیدا ہونے والے ممکنہ اثرات سے پاکستان کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنایا جا سکے۔
خود طالبان کے نامزد کردہ ثالث بھی الزام لگا رہے ہیں کہ حکومت بظاہر اب مذاکرات جاری رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتی اور ان کی متعدد کوششوں کے باوجود تعطل کے شکار عمل کو بحال کرنے میں پیش رفت نہیں کی جا رہی۔
وائس آف امریکہ سے اتوار کو گفتگو کرتے ہوئے طالبان کے مقرر کردہ ثالث مولانا محمد یوسف شاہ کا کچھ یوں کہنا تھا۔
’’عملی طور پر تو انہوں (حکومت) نے جنگ شروع کی ہے اور ہمیں معلوم نہیں کہ وہ مذاکرات کس کے ساتھ کر رہے ہیں۔ ہمارے علم میں تو کچھ نہیں ہے۔ باقی ان کے عزائم و رائے ہمیں معلوم نہیں ہیں۔‘‘
تاہم گزشتہ روز ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی خبر کی سخت الفاظ میں تردید کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت نے مذاکراتی عمل ختم کرنے اور شمالی وزیرستان میں بھرپور فوجی آپریشن شروع کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
حکومت میں شامل سینیئر عہدیدار کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کے کچھ گروہ بات چیت کے حامی ہیں جن سے مذاکرات کیے جائیں گے تاہم تشدد کی کارروائیوں پر مُصر دھڑوں کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔
حکومت اور کالعدم عسکریت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان فروری میں شروع ہونے والے امن مذاکرات ایک ہی ماہ بعد اس وقت معطل ہوگئے جب فائر بندی میں توسیع نا کرتے ہوئے شدت پسندوں کی طرف سے الزامات سامنے آئے کہ ان کے ساتھیوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔
جس کے بعد سے اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف حصوں میں شدت پسندوں کی طرف سے مہلک کارروائیاں بھی دیکھنے میں آئیں۔
حال ہی میں القاعدہ سے منسلک عسکریت پسندوں کے گڑھ شمالی وزیرستان میں بدھ کو ایک فضائی کارروائی جس میں پانچ غیر ملکی جنگجو کمانڈروں سمیت 71 سے زائد شدت پسند مارے گئے۔
دفاعی تجزیہ کار حسن عسکری رضوی طالبان مذاکرات اور موجودہ سکیورٹی خدشات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’مسئلہ یہ ہے کہ حکومت نظریاتی طور پر فوج کو آپریشن شروع کرنے کا کہنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ فوج اس نتیجے پر پہنچ گئی ہے کہ کارروائی کرنی ہے اور وہ محدود کارراوئیاں کر رہی ہے۔ 2015ء میں پاکستان کے مسائل بڑھ جائیں گے کیونکہ جب افغان طالبان اپنا زور دکھائیں گے تو یہاں والے بھی مضبوط ہو جائیں گے اور بیشتر قبائلی علاقہ پاکستان اور افغان طالبان لینڈ بن جائے گا تو اس وقت اسے کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا۔‘‘
بعض سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان میں شدت پسندوں کا مسئلہ رواں سال کے اواخر تک افغانستان میں غیر ملکی افواج کے انخلا سے پہلے پہلے حل کرنے کا منصوبہ ہے تاکہ انخلا سے پیدا ہونے والے ممکنہ اثرات سے پاکستان کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنایا جا سکے۔