رسائی کے لنکس

'یہ چینل فی الحال دستیاب نہیں، زحمت کے لیے معذرت خواہ ہیں'


فائل
فائل

یہ پیغام تھا پیر کی شام پاکستان کے تین نیوز چینلز کیپٹل ٹی وی، اب تک ٹی وی اور چینل 24 کی اسکرین پر۔ جب ان کی نشریات 19 گھنٹے تک معطل رہی۔

چینل24 کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر انصار نقوی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کا چینل انہیں کچھ بتائے بغیر اچانک بند کیا گیا تھا۔ تاہم، ان کی نظر میں معاملہ اتوار کو مریم نواز کے منڈی بہاؤالدین میں ہونے والے جلسے کی کوریج سے شروع ہوتا ہے۔

بقول ان کے، ’’پیمرا اتھارٹی کا کچھ کہے اور سنے بغیر چینل کو آف ایئر کرنا، عدالت کا بغیر ٹرائل کے سزا سنانے کے مترادف ہے‘‘۔

وہ کہتے ہیں کہ ’’کسی ایک فریق کی رائے کو نشر کرنا اور دوسرے کے موقف کو چھپانا کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی نہیں، بلکہ ایک غیر جانبدارانہ صحافت کا عکاس ہے‘‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’حکمراں جماعت، پی ٹی آئی سے منسلک رہنماؤں کے موقف کو نشر کرنا اور اپوزیشن جماعتوں کے لوگوں کی رائے نشر نہ کرنا، ان کے ادارے کے لیے ممکن نہیں‘‘۔

کیپیٹل ٹی وی بھی ان چینلز میں شامل ہے جسے نو گھنٹے تک نشریات کے تعطل کا سامنا رہا۔ چینل سے وابستہ اینکر پرسن داؤد جبار خیل کا کہنا ہے کہ ’’اس وقت میڈیا سینسرشپ کے لیے استعمال ہونے والا سب سے مؤثر ہتھیار پیمرا ہے۔ اسے کون، کس طرح استعمال کر رہا ہے؟ اس بارے میں ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ تاہم، یہ ذمہ داری حکومت وقت کی ہے کہ وہ آزادی صحافت کو یقینی بنائے‘‘۔

عوامی آواز میڈیا گروپ کے چیف ایڈیٹر اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز کے سیکرٹری جنرل، جبار خٹک نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس وقت پاکستان میں میڈیا کو بدترین سینسرشپ کا سامنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’میڈیا پر پابندیاں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اور درست معلومات حاصل کرنے کے حقوق اور تحریر و تقریر کی آزادی کی خلاف ورزی ہے‘‘۔

انہوں نے پی ٹی آئی کی حکومت پر الزام لگایا کہ ’’ان میں خود پر نکتہ چینی سننے کے لیے برداشت نہیں‘‘۔

جیو چینل کے حامد میر کہتے ہیں کہ ’’آزادی صحافت فطری آزادی ہے اور فطرت کو دبایا نہیں جا سکتا‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’نقطہ نظر کا تبادلہ ہونا چاہیے اور ایک دوسرے کی رائے کو سننا اور اس کا احترام کرنا جمہوریت کا مسلمہ اصول ہے؛ اور اسی کے تحت آگے بڑھنا چاہیے‘‘۔

حکمراں جماعت، پی ٹی آئی کے ایک سینئر رہنما دوا خان کا کہنا تھا کہ اس وقت حکومت کو بےشمار مسائل کا سامنا ہے، جو، ان کے بقول، انہیں وراثت میں ملے ہیں۔ اور، ان کی حکومت چاہتی ہے کہ میڈیا سمیت تمام ادارے اپنی بنیادی ذمہ داریوں کو سامنے رکھتے ہوئے کام کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’میڈیا کا کام عوام تک معلومات پہنچانا ہے نہ کہ ان میں انتشار پھیلانا‘‘۔

دفاعی تجزیہ کار ریٹائرڈ بریگیڈیئر عمران ملک کا کہنا تھا کہ ’’اس وقت پاکستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ایسے میں، اگر ملکی میڈیا ذمہ دارانہ کردار ادا نہیں کرے گا تو حکومت اور سیکورٹی اداروں کے پاس ایسے میڈیا چینلز اور اس سے وابستہ صحافیوں پر دبائو ڈالنے کے علاوہ کوئی اور آپشن باقی نہیں رہتا‘‘۔

پاکستان میں کیبل آپریٹرز ایسوسی ایشن سے منسلک ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کسی بھی میڈیا چینل کو معطل کرنے کا حکم انہیں پیمرا کی جانب سے دیا جاتا ہے؛ اور پیر کی شب بھی اسی قسم کا حکم ملک کے تین ٹی وی چینلز کو آف ایئر کرنے کے حوالے سے دیا گیا تھا۔ اس قسم کا حکم پیمرا کو کہاں سے ملتا ہے؟ اس سوال کا جواب پاکستان میں کیبل آپریٹرز ایسوسی ایشن کے عہدیدار نے ہنسی کی صورت میں دیا۔

XS
SM
MD
LG