بھارتی جیل میں 18 سال سے قید تین پاکستانی ماہی گیروں نے اپنے خاندان کو لکھے گئے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ ان کی رہائی کے لئے حکومت پاکستان اقدامات کرے۔۔ تینوں ماہی گیر 1990 سے بھارتی جیلوں میں قید ہیں اور اس وقت انہیں ریاست گجرات کی راجکوٹ سینٹرل جیل میں رکھا گیا ہے، جہاں وہ عمر قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔
ان قیدیوں پر الزام ہے کہ انہوں نے پاکستان سے بھارت اسلحہ اسمگل کیا تھا۔ لیکن تینوں گرفتار پاکستانی ماہی گیروں عثمان جاٹ، زمان جاٹ اور سچو جاٹ ان الزامات کی ہمیشہ سے تردید کرتے آ رہے ہیں۔
ان ماہی گیروں کے خاندان کے مطابق تینوں ماہی گیر ٹھٹھہ کے علاقے شاہ بندر میں ایک سمندری طوفان میں جان بچاتے ہوئے بھٹک کر بھارتی علاقے میں جا پہنچے تھے جہاں انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
تینوں ماہی گیروں کے ساتھ ایک اور پاکستانی ماہی گیر محمد نواز بھی بھارت کی جیل میں قید تھا جس کا 2010 میں قید کے دوران ہی انتقال ہو گیا تھا۔ جبکہ دیگر تینوں کو اب بھی اپنی رہائی کی امید ہے۔ لیکن بھارتی قانون کے مطابق عمر قید کا مطلب ساری عمر جیل میں رہنا ہے۔
اب ان ماہی گیروں کی رہائی دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح پر رابطوں اور مذاکرات ہی سے ممکن ہے۔تقریبا تین دہائیوں سے قید ان تین ماہی گیروں کے خاندان میں اب عثمان کی بہن ماہی باگی کراچی میں مقیم ہیں جو انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ ماہی باگی کے مطابق یہ خط ان کے بھائی سے چار سال میں پہلا رابطہ ہے۔
پاکستانی ماہی گیروں کی جانب سے 29 دسمبر کو گجرات کی راجکوٹ سینٹرل جیل سے بھیجے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ان کے خاندان نے انہیں بتایا تھا کہ ان کی سزا کے خلاف چار سال قبل بھارتی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تھی لیکن ان چار برسوں میں اس اپیل کا کیا نتیجہ رہا، انہیں اس کا کوئی علم نہیں، جبکہ پاکستانی سفارت خانے نے بھی ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔
گرفتار ماہی گیروں کے مطابق انہیں پاکستان میں اپنے پیاروں کی یاد ستاتی ہے لیکن وہ قید میں مجبور ہیں۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ انہیں جلد رہائی نصیب ہو گی۔
ماہی گیروں نے خط کے ذریعے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کی رہائی کے لئے بھارتی حکومت سے بات کریں۔
اسی معاملے پر بات کرتے ہوئے چئیرمین پاکستان فشرفوک فورم محمد علی شاہ کا کہنا ہے کہ ایسی کہانیاں پاکستان اور بھارت کے ماہی گیروں اور ان کے خاندانوں کا المیہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی پاکستان کے 150 ماہی گیر بھارتی جیلوں میں، جبکہ بھارت کے 450 سے زائد ماہی گیر پاکستانی جیلوں میں قید ہیں۔ اس مسئلے کے لئے دونوں ممالک کو مذاکرات کے ذریعے متنازعہ آبی حدود کے مسائل حل کرنے چائیں، جبکہ اس کیس کو بھی انسانی پہلو کی بنیاد پر دیکھنا چائیے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کے سرگرم کارکن صارم برنی کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کو ماہی گیروں کی قید کے مسئلے کو دشمنی اور نفرتوں کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے خالصتاً انسانی مسئلہ سمجھ کر دیکھنا چائیے اور اس کے حل کی سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
دونوں ممالک کو انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کو بھی ملحوظ رکھنا چائیے تاکہ غلطی سے سرحد پار کر جانے والے ماہی گیروں کو اس کی اتنی بھاری قیمت ادا نہ کرنا پڑے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 1965 سے رن آف کچھ کے علاقے میں زمینی اور پانی کی حدود کے تعین پر تنازعہ چل رہا ہے۔ سرحدی تنازعہ حل نہ ہونے کے باعث اس کا سب سے بڑا نقصان دونوں ممالک کے ماہی گیروں کو ہو رہا ہے جو سرحد کا تعین نہ ہونے کے باعث دوسرے ملک کی میری ٹائم سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں اپنی رہائی کے لئے عام طور پر برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔
وائس آف امریکہ اردو کی سمارٹ فون ایپ ڈاون لوڈ کریں اور حاصل کریں تازہ تریں خبریں، ان پر تبصرے اور رپورٹیں اپنے موبائل فون پر۔
ڈاون لوڈ کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
اینڈرایڈ فون کے لیے:
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.voanews.voaur&hl=en
آئی فون اور آئی پیڈ کے لیے:
https://itunes.apple.com/us/app/%D9%88%DB%8C-%D8%A7%D9%88-%D8%A7%DB%92-%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88/id1405181675