رسائی کے لنکس

'پاکستان میں صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ'


فائل
فائل

پاکستان میں صحافیوں کے حقوق کے لیے سرگرم ایک غیر سرکاری تنظیم نے پاکستان میں صحافیوں، میڈیا ہاؤسز اور ان سے منسلک کارکنوں کے خلاف تشدد اور ’’ڈرانے دھمکانے کے بڑھتے ہوئے واقعات‘‘ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

’فریڈم نیٹ ورک‘ کی طرف سے جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’گزشتہ ایک سال کے دوران ملک بھر میں صحافیوں اور ذرائع ابلاغ کے خلاف تشدد، مہلک حملوں اور دیگر نوعیت کے 150 سے زائد واقعات ریکارڈ کیے گئے، جبکہ اس دوران ملک میں پانچ صحافی مختلف واقعات میں قتل کر دیئے گئے‘‘۔

ادارے کی طرف سےجاری کی گئی رپورٹ میں یکم مئی2017ء سے 30 اپریل 2018ء کے دوران پاکستان بھر میں صحافیوں کے خلاف ہونے والے حملوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہےکہ ’’ان میں سے زیادہ تر واقعات میں مبینہ طور پر ریاستی عناصر عسکریت پسند، سیاسی جماعتیں، مذہبی گروپ ملوث پائے گئے‘‘۔

گزشتہ سال پاکستان میں صحافیوں کے خلاف رپورٹ ہونے والے واقعات میں 35 فیصد واقعات دارالحکومت اسلام آباد میں ریکارڈ ہونے کی وجہ سے اسلام آباد کو صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک جگہ قرار دی گئی ہے۔ جبکہ کے صوبہ پنجاب میں 17 فیصد، سندھ میں 16 فیصد، بلوچستان میں 14 فیصد، خیبر پختونخواہ میں 12 فیصد اور ملک کے قبائلی علاقوں میں 10 فیصد واقعات ریکارڈ ہوئے۔

’فریڈم نیٹ ورک‘ پاکستان کےایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے بدھ کو ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں پاکستانی صحافیوں اور میڈیا کو درپیش خطرات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان واقعات میں اضافہ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

بقول اُن کے "ملک میں امن و امان کی صورت حال کی بہتری کے بعد اس بات کی توقع کی جا رہی تھی کہ اب صحافی زیادہ آزادی اور بغیر ڈر و خوف سےاپنےفرائض ادا کر سکیں گے۔ لیکن، افسوس کی بات ہے کہ ایسا نہیں ہے۔"

اقبال خٹک نے مزید کہا کہ ’’ملک میں میڈیا کو درپیش خطرات کی وجہ صحافی اور ادارے سیلف سنسر شپ پر مجبور ہوئے ہیں‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ "صحافیوں نے اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ اگر ان کو زندہ رہنا ہے اور انہیں تشدد سے بچنا ہے تو وہ ایسے خبروں سے پرہیز کریں جو اس قسم کی تشدد کو سبب سکتی ہیں اور ایڈیٹر بھی شاید صحافیوں کی حوصلہ افزائی نہیں کر رہے ہیں کہ وہ کسی تحقیقاتی خبر کی تلاش کر کے اچھی سے خبر سامنے لائیں۔"

پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم 'ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان' کے سربراہ اور ابلاغ کے ماہر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ ماضی میں پاکستان صحافیوں کو مختلف طرح کے دباؤ کا سامنا رہا ہے۔

اُن کے الفاظ میں، "صحافی کو خبر دینی چاہیے۔ خود سے یہ فیصلہ کر لینا کیونکہ خبر دینے کی اجازت نہیں ہے اس لیے ہم یہ رپورٹ فائل نہیں کرتے یہ سیلف سنسر شپ ہے اور اس کی وجہ سے لوگوں کا جاننے کا حق متاثر ہوتا ہے۔"

حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ حکومت صحافیوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدمات کیے ہیں۔ تاہم، صحافیوں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ صحافیوں اور میڈیا کے خلاف ہونے والے واقعات میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچائے بغیر اپنے تحفظ و سلامتی سے متعلق صحافیوں کے خدشات بر قرار رہیں گے۔

XS
SM
MD
LG