روشن مغل
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ہزاروں افراد نے جمعہ کے روز کنٹرول لائن کی طرف مارچ کیا ۔
پولیس نے مارچ کے شرکا کو کنٹرول لائن کے قریب جانے سے روکنے کے آنسو گیس اور لاٹھیوں کا استعمال کیا ۔مارچ کے شرکا اور پولیس کے درمیان تصادم کے دوران مظاہرین نے شہڑہ ککوٹہ پولیس چوکی کو آگ لگا دی گئی ۔
موقع پر موجود اسسٹنٹ کمشنر ممتاز احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مظاہرین کی طرف سے پتھراؤ کے نتیجے میں ایک مقامی صحافی بھی زخمی ہوا ۔
انہوں نے کہا کہ شرکا کو کنٹرول لائن سے آدھ کلو میڑ پیچھے اس لیے روکا گیا ہے کیونکہ بھارتی فوج نے دو روز قبل اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کی موجودگی میں دو افراد کو فائرنگ سے زخمی کردیا تھا۔
مظاہرین اور پولیس کے درمیان کئی گھنٹوں تک جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا ۔جس کے نتیجے میں دو نوں جانب کئی افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاع ہے جن میں لبرشن فرنٹ کے ایک سینیر راہنما عبدالحمید بٹ کے بھی شامل ہیں۔
مارچ کا اہتمام کشمیر کی خود مختاری کی حامی قوم پرست تنظیم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی طرف سے جنگ بندی لائن پر گولہ باری سے متاثرہ افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے کیا گیا تھا۔
مارچ میں شامل سرحدی قصبے ہیجرہ کے صحافی ملک ذوالفقار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کوٹلی اور پونچھ اضلاع کے مختلف علاقوں سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد مارچ میں شامل ہوئی۔
یک جہتی مارچ کے منتظم لبرشن فرنٹ پاکستانی کشمیر زون کے صدر توقیر گیلانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مارچ کا مقصد پاکستان اور بھارت سے گولہ باری روکنے پر زور دینا ہے ۔
جمعہ کے روز لبرشن فرنٹ کی طرف سے جنگ بندی لائن پر گولہ باری سے متاثرہ خاندانوں سے اظہار ہمددردی کے لیے کیے جانے والے مارچ میں لوگوں کی اتنی تعداد کئی برسوں بعد دیکھنے میں آئی ہے ۔
پاکستانی کشمیر کے کوٹلی اور پونچھ اضلاع کے سرحدی دیہات گزشتہ چند سالوں سے جنگ بندی لائن پار سے ہونے والی فائرنگ اور گولہ باری کی زد میں ہیں جس کی وجہ سے ان علاقوں میں روز مرہ زندگی مشکلات کا شکار ہے ۔ اور پاک بھارت افواج کے درمیان ہونے والی گولہ باری سے کشمیر کو تقسیم کرنے والی جنگ بندی لائن کے دونوں اطراف فوجیوں کے علاوہ عام شہری بھی ہلاک ہو جاتے ہیں ۔