رسائی کے لنکس

'پب جی' سے شروع ہونے والی لو اسٹوری جس نے پاکستانی خاتون کو بھارت پہنچا دیا


ـ"میں سچن سے بہت پیار کرتی ہوں۔ ان کے بغیر ایک پل بھی نہیں رہ سکتی۔ ان سے شادی کرکے یہیں رہنا چاہتی ہوں۔ پلیز ان سے میری شادی کرا دیں۔ میں پاکستان واپس جانا نہیں چاہتی۔"

یہ درخواست ہے پاکستان کی27 سالہ خاتون سیما غلام حیدر کی جو انہوں نے پولیس کی گرفت میں آنے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کی۔ انہیں اتوار کو دہلی سے متصل نوئیڈا سے حراست میں لیا گیاتھا۔

منگل کو انہیں گرفتار کرکے گوتم بدھ نگر کی سورج پور ضلعی عدالت میں پیش کیا گیا جس نے انھیں 14 دنوں کے لیے عدالتی تحویل میں جیل بھیج دیا گیا۔

وہ کراچی کی رہائشی ہیں۔ شادی شدہ اور تین بیٹیاں اور ایک بیٹے یعنی چار بچوں کی ماں ہیں۔ مجسٹریٹ کی ہدایت کے مطابق ان کے چاروں بچے بھی ان کے ساتھ جیل میں رہیں گے۔ ان کی سب سے چھوٹی اولاد 2019 میں پیدا ہوئی تھی۔


سچن نے بھی میڈیا سے گفتگو میں انہی جذبات کا اظہار کیا اور سیما سے شادی کرکے گھر بسانے کی خواہش ظاہر کی۔ 22 سالہ سچن کے مطابق وہ شادی کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔ پولیس نے سچن کے والد نیترپال سنگھ کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔ تینوں کے خلاف متعدد دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

سیما کے شوہر کا نام غلام حیدر ہے جو کہ مستری ہیں اور اس وقت سعودی عرب میں کام کر رہے ہیں۔ وہ 2019 میں کراچی سے سعودی عرب گئے تھے۔ سیما کا کہنا ہے کہ وہ ان پر تشدد کرتے تھے لہٰذا انہوں نے زبانی طلاق لے لی ہے۔

سیما سچن کی پریم کہانی بالکل فلمی لگتی ہے لیکن یہ فلمی نہیں بلکہ سچی کہانی ہے جو سوشل میڈیا کے بطن سے پیدا ہوئی ہے۔

سیما اور سچن کو ’پب جی‘ گیم کھیلنے کا شوق تھا۔ جب سیما کے شوہر 2019 میں سعودی عرب چلے گئے تو ان کا زیادہ تر وقت سیل فون پر گزرنے لگا۔ پب جی کھیل کے دوران دونوں ایک دوسرے کے رابطے میں آئے اور پھر قریب ہوتے چلے گئے۔

سیما کے مطابق وہ اپنے چاروں بچوں کے ساتھ 27 مئی کو کراچی سے دبئی گئیں اور وہاں سے نیپال کے دار الحکومت کٹھمنڈو پہنچیں۔ وہاں سے وہ نیپال کے شہر پوکھرا گئیں جہاں سے بذریعہ بس بھارت میں داخل ہو گئیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت نیپال سرحد پر جو کہ کھلی سرحد ہے، پولیس کے سوال پر انہوں نے خود کو ہندو اور اپنا سنگل نام سیما بتایا۔ چوں کہ ان کے ساتھ چار بچے بھی تھے لہٰذا پولیس کو کوئی شک نہیں ہوا۔

ان کی اگلی منزل دہلی شہر تھا۔ دہلی سے وہ 13 مئی کو گریٹر نوئڈا کے ربوپورا میں سچن کے گھر گئیں جہاں انہوں نے ایک ماہ گزارا۔ دونوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک مقامی وکیل سے رابطہ قائم کیا۔

بلند شہر سے تعلق رکھنے والے مذکورہ وکیل نے نام راز میں رکھنے کی شرط پر اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ کو بتایا کہ خاتون نے کہا کہ وہ پاکستانی ہیں اور شادی شدہ ہیں۔ ان کے شوہر ان پر تشدد کرتے تھے۔ ان کے بھائی پاکستانی آرمی میں ہیں۔

وکیل کے مطابق جب انہوں نے ان کے بھارتی ویزا کے بارے میں معلوم کیا تو وہ وہاں سے چلی گئیں۔ انھوں نے اپنے ایک ساتھی کو ان کے پیچھے لگایا اور جب وہ سچن کے گھر میں چلی گئیں تو انھوں نے پولیس کو مطلع کر دیا۔

وکیل کی جانب سے الرٹ کیے جانے کے بعد پولیس نے سچن کی فون لوکیشن ٹریس کرنا شروع کی جو اترپردیش کے متھرا میں پائی گئی۔ اس کے بعد اترپردیش کا انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) بھی اس مہم میں شامل ہو گیا۔ اس طرح دونوں کو گرفتار کیا گیا۔

پولیس نے اس کی اطلاع نئی دہلی میں پاکستانی سفارت خانے کو دے دی ہے۔ متعدد مرکزی ایجنسیاں اس معاملے کی جانچ کر رہی ہیں۔


ایڈیشنل پولیس کمشنر (لا اینڈ آرڈر) سریش راؤ اروند کلکرنی کے مطابق پوچھ گچھ کے دوران سیما نے بتایا کہ انھوں نے خیرپور سندھ میں واقع اپنے والدین کا مکان 12 لاکھ روپے میں فروخت کر دیا تاکہ وہ بھارت آکر سچن سے شادی کر سکیں۔

پولیس کے مطابق سچن نے اپنے والدین سے الگ ایک مکان کرائے پر لے لیا۔ اس نے مکان مالک سے سیما حیدر کو اپنی بیوی بتایا۔ وہ کبھی شلوار قمیض میں تو کبھی ساڑھی میں نظر آتی تھیں لہٰذا کسی کو شک نہیں ہوا۔

قبل ازیں رواں سال کے مارچ میں دونوں نے نیپال میں ملاقات کا منصوبہ بنایا تھا۔ سیما غلام حیدر کراچی سے شارجہ گئیں اور وہاں سے کٹھمنڈو آئیں۔ سچن مینا نے 25 ہزار روپے قرض لیے اور دہلی سے بذریعہ بس کٹھمنڈو پہنچے۔ وہاں وہ ایک ہوٹل میں ایک ہفتے تک رہے اور وہیں انہوں نے شادی کا فیصلہ کیا۔

ربوپورا نوئڈا کے ایک پولیس عہدے دار سدھیر کمار کے مطابق سچن نے اپنے اہل خانہ کو سیما کے بارے میں بتایا تھا اور شادی کے فیصلے کی اطلاع دی تھی۔ سچن کے گھر والے بھی اس شادی کے لیے تیار تھے۔ لہٰذا وکیل سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

پولیس نے بتایا کہ امیگریشن بیورو کو اس کی اطلاع دے دی گئی ہے اور اس سے کہا گیا ہے کہ وہ سیما حیدر کے اہل خانہ کو مطلع کرے۔ سیما کے مطابق ان کے گھر والوں کو ان کے بھارت آنے کی اطلاع نہیں ہے۔

گریٹر نوئڈا کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس (ڈی سی پی) سعد میاں خان نے میڈیا کو بتایا کہ سیما کے پاس سے ایک میرج رجسٹریشن سرٹیفکیٹ، پاکستانی پاسپورٹ اور پاکستانی شہریت کارڈ اور اسمارٹ فون برآمد ہوئے ہیں۔ مرکزی ایجنسیاں ان اشیا کی جانچ کر رہی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے بھائی کے آرمی میں ہونے کی بھی تحقیقات کی جا رہی ہے۔

اُنہوں نے مزید بتایا کہ سیما حیدر کو یو ٹیوب ویڈیوز سے نیپال کے راستے غیر قانونی طور پر بھارت میں داخل ہونے کا آئیڈیا ملا۔ نیپال سے بھارت آتے وقت انہوں نے بس کے ایک مسافر سے ہاٹ اسپاٹ شیئر کرنے کی گزارش کی تاکہ وہ واٹس ایپ پر سچن سے بات کر سکیں۔

'محبت سرحد دیکھتی ہے نہ مذہب'

سماجی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات عموماً فلموں میں دکھائے جاتے ہیں لیکن بعض اوقات حقیقی زندگی میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر بال مکند سنہا کا کہنا ہے کہ محبت نہ تو ملکی سرحد دیکھتی ہے، نہ مذہب نہ عمر۔ پہلے بھی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ فلمی نہیں بلکہ حقیقی زندگی کا واقعہ ہے لہٰذا اس پر بھی ملکی قوانین نافذ ہوتے ہیں۔

ان کے بقول مرکزی ایجنسیاں ایسے واقعات کی ہر پہلو سے جانچ کرتی ہیں۔ چونکہ انھوں نے بتایا ہے کہ ان کے بھائی پاکستانی آرمی میں ہیں لہٰذا ایجنسیاں اس پہلو کی بھی جانچ کریں گی۔ اگر ان کا کوئی مجرمانہ بیک گراؤنڈ نہیں ملا تو انہیں پاکستان بھیج دیا جائے گا۔

یاد رہے کہ قبل ازیں رواں سال کے جنوری میں حیدرآباد پاکستان کی ایک خاتون اقرا جیوانی کو بنگلور پولیس نے شبہے کی بنیاد پر گرفتار کیا تھا۔ وہ آن لائن گیم لوڈو کھیلتے ہوئے بنگلور کے ایک شخص ملائم سنگھ یادو کے رابطے میں آئی تھیں۔ دونوں میں پیار ہوا اور اقرا، یادو سے شادی کرنے کے لیے نیپال کے راستے غیر قانونی طور پر بھارت میں داخل ہوئی تھیں۔

مرکزی جانچ ایجنسیوں نے پاکستان میں اقرا کے والدین کا پتا لگایا اور مقامی پولیس سے بھی رابطہ قائم کیا۔ 19 سالہ اقرا کو فروری میں اٹاری واہگہ بارڈر سے پاکستان بھیج دیا گیا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG