بین الاقوامی امدادی گروپوں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے کیونکہ اسرائیل نے اس چھوٹے سے محصور علاقے میں خوراک، پانی، ایندھن اور بجلی کی فراہمی مکمل طور پر بند کر دی ہے اور مصر کے ساتھ اس کی گزرگاہ ناقابل استعمال ہے۔
ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی یا آئی سی آر سی کے ایک سینئر اہل کار نے خبردار کیا کہ بجلی کی کمی اسپتالوں کو مفلوج کرکے رکھ دے گی۔
آئی سی آر سی کے علاقائی ڈائریکٹر فابریزیو کاربنی کا کہنا ہے کہ غزہ میں بجلی ختم ہو نے کے نتیجے میں اسپتالوں میں بجلی منقطع ہو جاتی ہےاور انکیوبیٹرز میں نوزائیدہ بچے اور آکسیجن پر ڈالے گئے معمر مریضوں کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ گردے کا ڈائیلاسز رک جاتا ہےاور ایکس رے نہیں لیے جا سکتے۔ بجلی کے بغیر خطرہ ہے کہ اسپتال مردہ خانے میں تبدیل ہو جائیں گے۔
حماس کے عسکریت پسندوں کے اسرائیل پر ایک خونریز بڑےحملے کے بعد ایک ایسی جنگ شروع ہو چکی ہے جس میں اب تک دونوں جانب کے 2600 سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں۔
غزہ میں جمعرات کے روز فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد بیکریوں اور گروسری اسٹوروں کے باہر قطاروں میں کھڑی نظر آئی۔بجلی کی مکمل بندش کی وجہ سے وہ علاقوں میں رات گزارنے پر مجبور تھے جو اب کھنڈرات بن چکے ہیں ۔دوسری جانب اسرائیل نے نئے فضائی حملے شروع کر دیے ہیں اوراس کا کہنا ہے کہ وہ ممکنہ زمینی حملے کی تیاری کر رہا ہے۔
اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان لیفٹیننٹ کرنل رچرڈ ہیچٹ نے جمعرات کو صحافیوں کو بتایا کہ افواج ’’زمینی کارروائی کی تیاری کر رہی ہیں۔‘‘ غزہ میں 23 لاکھ افراد صرف 40 کلومیٹر (25 میل) کے رقبے میں آباد ہیں اور ممکنہ طور پر گھر گھر ہونے والی وحشیانہ لڑائی میں دونوں جانب بڑے جانی نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔
اسرائیل کی غزہ پر فضائی گولہ باری جاری رہی ہے جب کہ حماس کے جنگجو ہفتے کے آخر میں ہونے والے حملے کے بعد سے اسرائیل پر ہزاروں راکٹ داغ چکے ہیں۔ عسکریت پسندوں نے ایک اندازے کے مطابق 150 افراد کو اس علاقے میں یرغمال بنا رکھا ہے۔
فضائی حملوں سے بچنے کی کوشش میں گھر بار چھوڑنے والے فلسطینیوں کو اپنا سامان اٹھائے ہوئے کسی محفوظ جگہ کی تلاش میں بھاگتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے زیر انتظام اسکولوں میں ہزاروں افراد کا ہجوم ہے جب کہ متعدد افراد اپنے رشتہ داروں یا پھر اجنبیوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔
اقوام متحدہ نے بدھ کو دیر گئے بتایا کہ فضائی حملوں سے بے گھر ہونے والوں کی تعداد 24 گھنٹوں کے اندر 30 فیصد بڑھ کر 339000 ہو گئی ہے۔ ان میں سے دو تہائی اقوام متحدہ کے سکولوں میں جمع ہیں جب کہ دوسروں نے محفوظ محلوں میں پناہ لے رکھی ہے۔
بیکریوں اور گروسری اسٹورز کے باہر ان کھلنے کے مختصر اوقات کے دوران لوگوں کی قطاریں دیکھی گئیں تاکہ وہ شیلف خالی ہونے سے پہلے اپنا مطلوبہ سامان خرید کر ذخیرہ کر سکیں۔ غزہ کے واحد پاور سٹیشن پر بدھ کے روز ایندھن ختم ہو گیا اور صرف پرائیویٹ جنریٹرز کی مدد سے چلنے والی روشنیاں باقی رہ گئیں۔
اسرائیلی موقف
اسرائیل کے وزیر توانائی کاٹز نے کہا ہے کہ غزہ میں یرغمالو ں کی رہائی تک کسی بھی چیز کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے ٹویٹ کیا کہ ’’بجلی کا ایک بھی سوئچ آن نہیں کیا جائے گا۔ پانی کی ایک بھی ٹونٹی کھولی نہیں جائے گی اور ایندھن کا ایک بھی ٹرک اس وقت تک علاقے میں داخل نہیں ہو گا جب تک اسرائیلی یرغمالیوں کی وطن واپسی نہیں ہو جاتی۔‘‘
حماس کے عسکریت پسندوں نے ہفتے کے روز اسرائیل میں گھس کر سینکڑوں لوگوں کو ان کے گھروں میں، سڑکوں پر اور ایک آؤٹ ڈور میوزک فیسٹیول میں ہلاک کیا اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اس گروپ کو "کچلنے" کا عزم کیا ہے جو 2007 سے غزہ میں حکومت کر رہا ہے۔
اسرائیلی حکومت پر شدید عوامی دباؤ ہے کہ وہ غزہ میں حماس کو ختم کرے کیونکہ اس گروپ کے ساتھ چار بار جھڑپیں ہو چکی ہیں لیکن وہ اب بھی اس علاقے کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے۔ اسرائیل نے اپنے ریزرو عملے کے 360000 ارکان کو متحرک کیا ہےاور غزہ کے قریب اضافی فوجیں جمع کی ہیں جب کہ قریبی آبادیوں سے بڑی تعداد میں باشندوں کو نکال لیا گیاہے۔
امریکہ نےاسرائیل کی غیر متزلزل حمایت کا وعدہ کیا ہےاورامریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن اسرائیلی رہنماؤں سے ملاقات کے لیے جمعرات کو تل ابیب پہنچے۔ وہ جمعے کے روز فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس اور اردن کے شاہ عبداللہ دوم سے ملاقات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
بلنکن نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد کہا کہ آپ خود اپنے دفاع کے لیے کافی مضبوط ہوسکتے ہیں لیکن جب تک امریکہ موجود ہے آپ کو کبھی فکر نہیں ہوگی۔ ’’ہم ہمیشہ آپ کا ساتھ دیں گے۔‘‘
اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے دفتر کا کہنا ہے کہ ہفتے کے روز سے اسرائیلی حملوں میں 1000 مکانات مسمار ہو چکے ہیں جب کہ مزید 560 مکانات ناقابل رہائش ہیں۔ دفتر نے بتایا ہے کہ اسرائیل کی ناکہ بندی کے نتیجے میں 650000 سے زیادہ لوگوں کے لیے پانی کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔ سیوریج کا نظام تباہ ہو چکا ہے اور گندا پانی گلیوں میں خارج ہو رہا ہے۔
مصر کی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس نے رفاح کراسنگ کو باضابطہ طور پر بند نہیں کیا ہے لیکن اسرائیلی فضائی حملوں کی وجہ سے یہ قابل استعمال نہیں رہا ۔ مصر نے رفاح کے ذریعے امداد اور ایندھن کی ترسیل کی اجازت دینے کے لیے اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ بات چیت کی ہے۔ غزہ کی یہ واحد کراسنگ ہے جو اسرائیل کے کنٹرول میں نہیں ہے۔
فلسطینی وزارت صحت نے بتایا کہ غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 1350 ہو گئی ہے۔اسرائیلی فوج نے کہا کہ اسرائیل میں 1300 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 222 فوجی بھی شامل ہیں ۔دونوں طرف سے ہزاروں افراد زخمی ہوئے ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے تقریباً 1500 جنگجو اسرائیل کے اندر مارے گئے جب کہ غزہ کے اندر ہلاک ہونے والے سینکڑوں افراد حماس کے ارکان ہیں۔
اس خبر کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔
فورم