رسائی کے لنکس

وزیرِ اعلٰی پنجاب کا انتخاب: مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی اراکین کی 'حفاظت' میں مصروف


 فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں وزارتِ اعلٰی کے انتخاب کے لیے جمعے کو میدان لگے گا جس میں اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی اور موجودہ وزیرِ اعلٰی پنجاب حمزہ شہباز شریف ایک بار پھر مدِ مقابل ہیں۔

انتخابات سے قبل ہی ایک بار پھر دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر ہارس ٹریڈنگ کے الزامات عائد کر رہی ہیں۔ تحریکِ انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے بدھ کو ایک نیوز کانفرنس میں الزام لگایا تھا کہ مسلم لیگ (ن) نے تحریکِ انصاف کے ایک رُکن کو 40 کروڑ ادا کیے جس کے بعد مذکورہ رُکن ملک سے باہر چلے گئے ہیں۔

ادھر مسلم لیگ (ن) کے رہنما بھی یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے رہنما اُن کے اراکین کو خریدنے کے لیے کروڑوں روپے کی بولیاں لگا رہے ہیں۔

تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی جمعرات کو لاہور پہنچ رہے ہیں، اس دورے کے دوران وہ مسلم لیگ (ق) اور تحریکِ انصاف کی پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔

اراکینِ اسمبلی کا مقامی ہوٹلوں میں قیام

مسلم لیگ (ن) اور تحریکِ انصاف نے اپنے اراکین کو لاہور کے مقامی ہوٹلوں میں ٹھہرایا ہوا ہے، تاکہ 22 جولائی کو اُن کی پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں شرکت یقینی بنائی جا سکے۔

پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اُن کے ہوٹل میں مقیم افراد کی تعداد 188 ہے۔ پی ٹی آئی اور اِس کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے ارکان جمعرات کو پنجاب اسمبلی میں مشترکہ اجلاس میں شرکت کریں گے۔

مسلم لیگ (ن) نے اپنے ارکانِ اسمبلی اور اپنے اتحادی اراکین کو لاہور ایئرپورٹ کے قریب ایک نجی ہوٹل میں ٹھہرایا ہے جن سے آج وزیراعلٰی شہباز حمزہ شہباز خطاب کریں گے۔

فوج کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، احسن اقبال
please wait

No media source currently available

0:00 0:09:38 0:00

پنجاب اسمبلی میں نمبر گیم

ضمنی انتخابات کے بعد پنجاب اسمبلی میں نمبر گیم کو دیکھا جائے تو پی ٹی آئی سرِ فہرست ہے۔ ضمنی انتخابات میں 15 نشستیں ملنے کے بعد اب پارٹی کی پنجاب اسمبلی میں نشستوں کی مجموعی تعداد 178 ہو گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو اب 167 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔مسلم لیگ (ق) کی 10 جب کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی پنجاب اسمبلی میں سات نشستیں ہیں۔

مسلم لیگ (ق) کی حمایت کے ساتھ تحریکِ انصاف کو پنجاب اسمبلی میں 188 اراکین کی حمایت مل جائے گی جو وزارتِ اعلیٰ کے لیے درکار 186 راکین سے دو زائد ہیں۔

'سیاسی جماعتوں کو آئین کے تحت فیصلے کرنے چاہئیں'

سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتوں کو ملک میں آئین اور قانون کے مطابق چلنا چاہیے۔ ذاتی انا کو چھوڑ کر آئین کے مطابق فیصلے کرنے چاہیے تا کہ ملک میں جمہورت اور ادارے مضبوط ہوں۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار احمد ولید سمجھتے ہیں کہ جمہوری طور پر یہ ہونا چاہیے کہ جس جماعت کے نمبر زیادہ ہیں اُس کی حکومت بننی چاہیے مگر پاکستان میں گزشتہ کچھ ماہ سے دیکھ گیا ہے کہ جمہوری رویہ کسی بھی جماعت کی طرف سے نظر نہیں آیا ۔ حالیہ چند ماہ سے تمام جماعتوں نے آئین کے خلاف کام کرنے کی کوشش کی۔


وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ سیاسی طور پر کچھ ایسے کام ہوتے ہیں کہ جو سیاسی جماعتیں کرتی ہیں اور امیداروں کا دل لبھاتی ہیں۔ اِسی طرح عدم اعتماد کا لانا اور جمہوری طریقے سے کسی بھی امیدوار کے خلاف ووٹ دینا آئین میں لکھا ہے۔ لیکن گزشتہ چند ہفتوں میں صوبہ پنجاب میں اور وفاق میں آئین کے متصادم فیصلے کیے گئے۔

احمد ولید کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو ملکی صورتِ حال کو دیکھنا اور سمجھنا چاہیے کہ معیشت کہاں چلی گئی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کتنی گر گئی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ گرتی چلی جا رہی ہے۔

'دوبارہ انتخاب میں بھی ہنگامہ آرائی کا خدشہ ہے'

سینئر صحافی اور تجزیہ کار نسیم زہرہ سمجھتی ہیں کہ جمعہ کا دِن پنجاب کی سیاست کے لیے خاصا اہم ہو گا جس میں بظاہر عددی برتری پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کی نظر آتی ہے۔ اِسی طرح حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کی کوشش ہے کہ وزیراعلٰی پنجاب اُن کا ہو۔ جمعہ کے دِن ارکانِ اسمبلی کی معمول کی گنتی نہیں ہو گی بلکہ سیاسی طور پر کافی کشمکش ہو گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ق) لیگ پر مسلم لیگ (ن) خاص کام کر رہی ہےکہ جمہوری طریقے سے اُن کے ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل کی جائے۔ اِس سلسلے میں زرداری صاحب نے چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات بھی کی ہے۔ اگر تو سیاسی جماعتیں جمہوری طریقے سے ایک دوسرے کے ووٹ توڑتی ہیں تو یہ ایک جمہوری رویہ ہے جب کہ پیسوں کا استعمال جمہوری رویہ نہیں ہے۔

اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ یوں لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ق) اِس وقت چوہدری شمجاعت حسین اور پرویز الٰہی کے درمیان بٹی ہوئی ہے۔ نسیم زہرہ نے کہا کہ اتحادی جماعتوں نے تاحال یہ تسلیم نہیں کیا کہ وزیراعلٰی پنجاب اُن کا نہیں ہو گا۔


نسیم زہرہ کے بقول اگر پنجاب میں پی ٹی آئی اور مرکز میں ن لیگ کی حکومت قائم ہو جاتی ہے تو آئینی اور قانونی طور پر یہ حکومتیں قائم رہ سکتی ہیں۔ مگر اتحادی حکومت یہ سمجھتی ہیں کہ ایسا کرنے سے وہ سیاسی طور پر کمزور ہو جائے گی جس کے اثرات آئندہ عام انتخابات میں بھی نظر آ سکتے ہیں۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار افتخار احمد کہتے ہیں کہ جس کسی کے پاس بھی اکثریت ہے۔ اُسے وزیراعلٰی پنجاب ہونا چاہیے۔ جمہوریت پر سب کا یقین ہونا چاہیے۔ اِس وقت بات اخلاقیات کی نہیں آئین کی ہونی چاہیے۔ آئین کے مطابق جس کسی کے پاس بھی اکثریت ہے اُس کا حکومت بنانے کا حق ہے۔

XS
SM
MD
LG