سپریم کورٹ نے 196 مبینہ دہشت گردوں کی رہائی کا پشاور ہائی کورٹ کا حکم معطل کر دیا ہے اور دہشت گردوں کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔
سپریم کورٹ میں جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی اپیل پر سماعت کی۔
سماعت شروع ہوئی تو جسٹس قاضی امین نے استفسار کیا کہ کیا مجرمان جیل میں ہیں یا رہا ہو چکے ہیں؟
جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے آگاہ کیا کہ مجرمان تاحال جیلوں میں ہیں۔ عدالت سے استدعا ہے کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کیا جائے۔
جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ فوجی عدالتوں سے ٹرائل کے بعد مجرمان کو سزا ہوئی۔ ہر کیس کے اپنے شواہد اور حقائق ہیں۔
عدالت نے دہشت گردوں کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ کیس کی سماعت جمعے کو دوبارہ ہوگی۔
پشاور ہائی کورٹ کا کیا فیصلہ تھا؟
پشاور ہائی کورٹ نے گزشتہ ماہ فوجی عدالتوں کی طرف سے مختلف الزامات کے تحت سزاؤں کے خلاف دائر اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 196 افراد کی سزائیں کالعدم قرار دی تھیں جب کہ دیگر 100 درخواستوں پر مقدمات کا ریکارڈ طلب کیا تھا۔
چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس نعیم انور پر مشتمل بینچ نے اس کیس کی سماعت کی تھی۔
پشاور ہائی کورٹ میں یہ درخواستیں 2018 اور 2019 جب کہ کچھ درخواستیں 2020 میں دائر ہوئی تھیں۔
فوجی عدالتوں کے 196 مقدمات کا ریکارڈ پیش کیا گیا تھا جب کہ کل درخواستیں 306 تھیں۔
ماضی میں 74 افراد کو بھی بری کیا گیا تھا
پشاور ہائی کورٹ نے 2018 میں بھی اسی طرح کی 74 درخواستوں پر فیصلہ سنایا تھا اور درخواست گزاروں کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔
پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف خیبر پختونخوا کی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل کی تھی جس پر حکم امتناع جاری کیا گیا تھا۔
خیبر پختونخوا میں رائج ایکشن ان ایڈ اینڈ سول پاور آرڈیننس 2019 کو غیر قانونی قرار دینے کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کے دوران اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا کہ فوج کے زیرِ انتظام چلنے والے حراستی مراکز میں رکھے گئے افراد کے خلاف مقدمات کے فیصلے اگر فوجی افسر کی گواہی پر ہی ہونے ہیں تو پھر بہتر ہے کہ عام عدالتوں میں ہزاروں افراد کے خلاف دائر مقدمات کو فوجی عدالتوں کو ہی منتقل کر دیا جائے۔
واضح رہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں 2007 اور 2008 میں شدت پسند تنظیموں کے خلاف فوجی کارروائیوں کا آغاز کیا گیا اور اس دوران ہزاروں مشتبہ شدت پسندوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔
حکومت نے بڑے پیمانے ہر ہونے والی گرفتاریوں کو قانونی تحفظ دینے کے لیے 2011 میں ایکشنز اِن ایڈ آف سول پاور کے نام سے دو قوانین نافذ کیے جس میں ایک فاٹا جب کہ دوسرا ملاکنڈ ڈویژن کے زیرِ انتظام پاٹا کے اضلاع کے لیے تھا۔
ان قوانین کے تحت صوبے بھر میں متعدد حراستی مراکز قائم کیے گئے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے 2019 میں ایک آرڈیننس کے ذریعے ان مخصوص قوانین کا دائرہ پورے صوبے تک بڑھا دیا تھا۔
رواں سال مارچ میں وفاقی حکومت نے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کو فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت سے روکنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جو سپریم کورٹ نے مسترد کر دی تھی۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ ہائی کورٹ کے معاملات میں سپریم کورٹ کیسے مداخلت کر سکتی ہے؟
مجرمان کے وکیل کیا کہتے ہیں؟
اس کیس میں مجرمان کے وکیل شبیر گگیانی کہتے ہیں کہ اس کیس میں ریلیز آرڈر 16 جون کو جاری ہوئے تھے۔ اس کے بعد سے اب تک ان افراد کو رہا نہیں کیا گیا۔
ان کے بقول قانون کے مطابق آرڈر جاری ہونے کے بعد کسی بھی شخص کو حراست میں رکھان قانون کے خلاف ہے لیکن اس کیس میں ریلیز آرڈر کے بعد بھی ان افراد کو رہا نہیں کیا گیا۔
74 افراد کے رہا ہونے سے متعلق انہوں نے کہا کہ اس کیس میں بھی صرف ایک آدمی رہا ہو سکا تھا جب کہ باقی تمام افراد کے خلاف سٹے آرڈر مل گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ 74 افراد کے بارے میں بھی ہم نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی کہ حکم امتناع خارج کیا جائے لیکن وہ بھی نہیں ہوا اور اب اس کیس میں ہم دوبارہ اپیل دائر کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کیوں کہ پہلے کیس کا فیصلہ اب تک نہیں آیا اور اب یہ معاملہ بھی آگیا ہے جس کے بعد ہم انتظار کر رہے ہیں کہ عدالت اس بارے میں فیصلہ کرے۔