پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کی خاتون رہنما گلالئی اسماعیل کے والد پروفیسر اسماعیل کو پشاور کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے بدھ کو تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔
منگل کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے پروفیسر اسماعیل کی درخواست قبل از گرفتاری خارج کر دی تھی جس کے بعد اُنہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
پروفیسر اسماعیل اور ان کی بیٹی گلالئی اسماعیل کے خلاف سات دسمبر 2018 کو پشاور کی انسدادِ دہشت گردی پولیس نے مبینہ طور پر دہشت گردوں کو غیر ملکی اداروں کے ذریعے مالی معاونت کے الزام میں مختلف مقدمات درج کیے گئے تھے۔
پولیس کی جانب سے 2019 میں گلالئی اسماعیل کی گرفتاری کے لیے مختلف مقامات پر چھاپے بھی مارے گئے تھے۔ لیکن ستمبر 2019 میں وہ پراسرار طور پر امریکہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔
گلالئی اسماعیل نے والد کی گرفتاری کے بعد ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ اسی مقدمے کو پہلے ہی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے خارج کر دیا تھا۔ لہذٰا اس میں دوبارہ گرفتاری سمجھ سے بالاتر ہے۔
گلالئی اسماعیل اور ان کے والدین کے خلاف مذکورہ مقدمے کے علاوہ ستمبر 2013 میں پشاور کے علاقے کوہاٹی کے ایک چرچ پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کی مالی معاونت کا بھی الزام لگایا گیا تھا۔ گلالئی اور ان کے والدین ان الزامات کی کئی بار تردید کر چکے ہیں۔
گلالئی اسماعیل کے والد نے چند روز قبل پشاور ہائی کورٹ میں دائر ایک درخواست کی سماعت کے بعد سوشل میڈیا پر ہر قسم کی سرگرمیاں ترک کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ان کے بقول سوشل میڈیا پر ان کے تبصروں یا ریمارکس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے عہدے دار ناراض دکھائی دیتے ہیں۔
پروفیسر اسماعیل کے وکیل فضل اللہ ایڈوکیٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جسمانی ریمانڈ کے خاتمے پر وہ پروفیسر اسماعیل کی رہائی کے لیے درخواست ضمانت دائر کریں گے۔