سپریم کورٹ میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے سربراہ ارشد ملک کی تعیناتی کے کیس کے دوران چیف جسٹس نے گلزار احمد نے کہا ہے کہ ارشد ملک کو پی آئی اے یا ایئر فورس میں رہنے کا آپشن دیں۔ کیا پی آئی اے کو فل ٹائم سربراہ کی ضرورت نہیں؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ ارشد ملک پہلے سے ایئر فورس میں ملازم ہیں۔ ارشد ملک کو نئی ملازمت کیسے دی جا سکتی ہے؟ سپریم کورٹ ڈیپوٹیشن پر تعیناتی کے خلاف پہلے ہی فیصلہ دے چکی۔ عدالتی حکم کے خلاف تعیناتی کیسے ہو سکتی ہے؟
کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں قائم بینچ نے کی۔
عدالت میں حکومت اور پی آئی اے کی طرف سے کارکردگی رپورٹس پیش کی گئیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت اور پی آئی اے کی رپورٹس سے لگتا ہے ایک ہی بندے نے بنائی ہیں۔ صرف کاپی پیسٹ کام ہی چل رہا ہے۔ رپورٹ میں صرف ایئر مارشل صاحب کی تعریفیں کی گئی ہیں۔ سمجھ نہیں آ رہی تھی تعریفیں ختم کہاں جا کر ہوں گی۔
اس پر ارشد ملک کے وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ رپورٹ تیار کرتے وقت مجھ سے مشاورت نہیں ہوئی۔ پی آئی اے میں صرف پانچ افسران ایئر فورس سے آئے۔ ارشد ملک کے پاس ایوی ایشن کا بھر پور تجربہ ہے۔ ارشد ملک جے ایف تھنڈر کی تیاری کا بھی حصہ رہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ارشد ملک کو نئے سربراہ کی تعیناتی تک عارضی چارج دیا گیا تھا کیا قانون کے مطابق نئے سربراہ کی تعیناتی ہوگئی؟
نعیم بخاری نے کہا کہ ارشد ملک کو بورڈ نے حکومتی نامزدگی پر سربراہ لگایا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا تعیناتی کے لیے عالمی سطح پر اشتہار دیا گیا تھا؟ عدالت نے اپنے فیصلے میں تعیناتی کا پورا طریقہ بتایا تھا۔
نعیم بخاری نے کہا کہ عدالتی مداخلت سے کئی مسائل حل اور کئی نئے پیدا ہوئے۔ اسٹیل ملز کیس میں عدالت کی مداخلت سے نقصان ہوا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت نے صرف قانون پر عمل درآمد کا جائزہ لینا ہے۔ پی آئی اے میں بہت تجربے ہو چکے۔ ایک جرمن سربراہ لگایا وہ جہاز ہی ساتھ لے گیا۔
وکیل پی آئی اے بورڈ سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ارشد ملک کی تقرری کے لیے شفاف طریقہ کار اپنایا گیا۔ وفاقی حکومت بورڈ سلیکشن کی حتمی منظوری دیتی ہے۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ کئی کمپنیوں کے سربراہ بی اے پاس بھی نہیں۔
جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ بل گیٹس نے تو ایف اے بھی نہیں کیا ہوا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پی آئی اے کے سربراہ کے پاس کمپنی چلانے کا تجربہ نہیں۔ ہر بندے کو فنانس اور ایچ آر کا تجربہ نہیں ہوتا۔ پی آئی اے میں جہاز اڑانے والے کیپٹن کو بھی سربراہ لگایا گیا۔ پائلٹس کے دور میں بھی پی آئی اے کو اربوں کا خسارہ ہوا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے پی آئی اے کے سابق جرمن سربراہ کے حوالے سے سوال کیا کہ جرمن سربراہ جو جہاز لے کر بھاگ گیا تھا اس کا کیا ہوا؟ کیا جرمنی میں سابق ایم ڈی کے خلاف مقدمہ درج کرایا گیا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ کمرشل جہاز لے کر بھاگ جانا تو ہائی جیکنگ ہے۔
جس پر پی آئی اے حکام نے کہا کہ جہاز چوری کا کیس نیب کے پاس ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سانپ تو گزر گیا نیب اب لکیر پیٹ رہا ہے۔ حکومت جرمنی میں مقدمہ کرتی یہ تو انٹرنیشنل جرم ہے۔
جسٹس اعجاز نے کہا کہ سابق ایم ڈی کو ملک چھوڑ کر جانے کیسے دیا گیا؟ جہاز کی اڑان کی کسی کو خبر نہ ہوئی؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جہاز چوری نہیں ہوا دراصل پرانا ہو چکا تھا۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب ایسی بات نہ کریں جو ہضم نہ ہوسکے۔ ایسے بندے کو جرمنی سے لاکر جیل میں ڈالنا چاہیے۔ جہاز عوام کی پراپرٹی تھی۔ حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ پی آئی اے کے کسی افسر کا جہاز ہوتا تو پیچھے پڑ جاتا۔ حکومت ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ارشد ملک نے آخر ایک سال میں کیا ہی کیا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سارے جہان کو علم ہے کہ پاکستان کا جہاز چوری ہوا بس اداروں کو علم نہیں۔
سماعت کے دوران پی آئی اے کے کرایوں کے حوالے سے بھی عدالت نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد سے کراچی کا ٹکٹ 75 ہزار روپے میں آتا ہے۔ کراچی سے لندن کا ٹکٹ 75 ہزار روپے میں مل جاتا ہے۔ اس وقت ایئر ایشیا، انڈس ایئر اور شاہین ایئر کے جہاز اسکریپ میں پڑے سڑ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نجی ایئر لائنز کو لائسنس دے کر پی آئی اے روٹس فروخت کیے گئے۔
جسٹس اعجاز نے کہا کہ ایسی پالیسی بنانی چاہیے تھی کہ قومی اور نجی ایئر لائنز ترقی کریں۔ ایمریٹس کے پاس 275 جہاز ہیں اور پی آئی اے کا بزنس پلان تک نہیں اور پی آئی اے مزید بھرتیوں کی اجازت مانگ رہا ہے۔ حج فلائٹس میں بھی نجی ایئر لائنز کی اجارہ داری ہوتی ہے۔
عدالت نے ارشد ملک کو ائیر فورس یا پی آئی اے میں رہنے کا آپشن دینے کا کہا۔ بینچ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ ڈیپوٹیشن پر تعیناتی کے خلاف پہلے ہی فیصلہ دے چکی ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے عدالت کی مزید معاونت کے لیے وقت مانگ لیا۔ مزید سماعت 20 فروری تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
معاملہ ہے کیا؟؟
سندھ ہائی کورٹ نے گزشتہ سال 31 دسمبر کو پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو افسر ایئر مارشل ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا تھا اور ادارے میں نئی بھرتیوں، ملازمین کو نکالنے اور تبادلے پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔
سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ایئر مارشل ارشد ملک کو کام کرنے اور پی آئی اے میں خرید و فروخت، پالیسی سازی اور ایک کروڑ سے زائد کے اثاثے فروخت کرنے سے بھی روک دیا تھا۔
ایئر مارشل ارشد ملک کے خلاف ایئر لائنز سینئر اسٹاف ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری صفدر انجم نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔
درخواست میں ان کا کہنا تھا کہ مطلوبہ عہدے کے لیے ایئر مارشل ارشد ملک تعلیمی معیار پر پورے نہیں اترتے جب کہ ان کا کمرشل ایئر لائن سے متعلق کوئی تجربہ نہیں ہے۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ایئر مارشل ارشد ملک نے 1982 میں بی ایس سی کیا اور اس کے بعد 'وار اسٹڈیز' سے متعلق تعلیم حاصل کی۔ اُنہیں ایئر لائن انڈسٹری اور کمرشل فلائٹس سے متعلق سول ایوی ایشن کے قوانین سے آگاہی نہیں ہے۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ ایئر مارشل ارشد ملک کی تعیناتی میں پبلک سیکٹر کمپنیز رولز 2013 اور رول 2-اے کو نظر انداز کیا گیا۔ جس کے تحت سی ای او تعینات کیے جاتے ہیں۔
عدالت نے سماعت کے دوران ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا تھا لیکن اب یہ معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان پہنچ گیا ہے۔
ارشد ملک پاکستان ایئر فورس میں بطور ایئر مارشل کام کر رہے تھے۔ موجودہ حکومت نے انہیں پی آئی اے کی حالتِ زار بہتر کرنے کے لیے یہاں بھجوایا تھا۔ لیکن تاحال پی آئی اے کی حالت زار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آ سکی ہے جب کہ اب اس پر قرضوں کا بوجھ 400 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔