رسائی کے لنکس

ایرانی صدر کا مبینہ پولیس تشدد میں ایک شخص کی ہلاکت کی تحقیقات کا حکم


ایرانی صدر مسعود پیزشکیان، تہران میں پارلیمنٹ کے کھلے اجلاس کے دوران خطاب کر رہے ہیں۔ فوٹو اے پی 21اگست 2024۔
ایرانی صدر مسعود پیزشکیان، تہران میں پارلیمنٹ کے کھلے اجلاس کے دوران خطاب کر رہے ہیں۔ فوٹو اے پی 21اگست 2024۔
  • ایران کے نئے صدر نے دوران حراست پولیس کے مبینہ تشدد میں ایک شخص کی ہلاکت کی تحقیقات کا حکم دیاہے۔
  • اصلاح پسند صدر مسعود پیزشکیان کی انتخابی مہم میں یہ وعدہ شامل تھا کہ وہ دوران حراست مہسا امینی جیسی اموات کو روکیں گے۔
  • اس تازہ ترین ہلاکت میں، پانچ پولیس افسران کو پہلے ہی عارضی طور پر حراست میں لیا جا چکا ہے کیونکہ تفتیش جاری ہے۔


ایران کے صدر نے جمعرات کو سرگرم کارکنوں کے اس الزام کے بعد کہ ملک کے شمال میں دوران حراست ایک شخص کی موت کی وجہ پولیس افسران کا تشدد ہے اس تازہ ترین ہلاکت کی تحقیقات کا حکم دیاہے۔

یہ حکم اصلاح پسند صدر مسعود پیزشکیان کی طرف سے آیا ہے جو گزشتہ ماہ منتخب ہوئےہیں اورانہوں نے اس وعدے پر اپنی انتخابی مہم چلائی تھی کہ وہ حراست میں ایسی اموات کو روکیں گے جیسی کہ 2022 میں مہسا امینی کی موت تھی۔

مہسا امینی کو ایران کی اخلاقی پولیس نے مبینہ طور پر اسکارف صحیح طریقے سے نہ پہننے کے الزام میں گرفتار کیا تھا، انکی موت نے ملک گیر احتجاج کو جنم دیا تھا۔

اس تازہ ترین ہلاکت میں، پانچ پولیس افسران کو پہلے ہی عارضی طور پر حراست میں لیا جا چکا ہے کیونکہ تفتیش جاری ہے۔

کارکنوں نے ہلاک ہونے والے شخص کی شناخت 36 سالہ محمد میر موسوی کے طور پر کی ہے جن کا تعلق بحیرہ کیسپین کے قریب واقع صوبے گیلان کے شہر لاہیجان سے تھا۔

کارکنوں کا کہنا ہے کہ انہیں ہفتے کے روز سڑک پر لڑائی جھگڑے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا اور منگل کو ان کی موت ہو گئی۔

پولیس اور حکومت نے اس بارے میں بہت کم تفصیلات بتائی ہیں کہ حکام موسوی کی موت کی تحقیقات کیوں کر رہے ہیں۔

تاہم، انسانی حقوق کےگروپ ہینگاو نے اطلاع دی ہے کہ موسوی کو پڑوسی شہر لنگروڈ کے ایک پولیس اسٹیشن میں حراست میں لیا گیا تھا۔ جہاں ان کے الزام کے مطابق موسوی کو "شدید طور پر مارا پیٹا گیا اور وہ لہو لہان ہوگئے۔"

انہوں نے ایک دھندلی سی ویڈیو شائع کی ہے جو ان کے بیان کے مطابق موسوی کی موت کے بعد ان کی پشت کی ہے ، جو خون میں بھیگی اور زخموں کو برداشت کر رہی تھی۔ ان کا الزام ہے کہ موسوی کو اس طرح قتل کیا گیا ہے جب ان کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے۔

انسانی حقوق کےگروپ ہینگاو نے کہا کہ موسوی کو "گرفتاری کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کی قانون نافذ کرنے والی فورس کے خصوصی یونٹ کے حراستی مرکز میں تشدد کے دوران ہلاک کیا گیا تھا۔"

بقول گروپ کے"اس نوجوان کے خاندان پر ایرانی سیکورٹی ایجنسیوں کی طرف سے دباؤ ڈالا گیا ہے کہ وہ اس جرم کو عام کرنے سے باز رہیں۔"

ہینگاو نے موسوی کی شناخت ایران کی گیلک اقلیت سے تعلق رکھنے والے فرد کے طور پر کی ہے، جن کی اپنی زبان ہے اور وہ بنیادی طور پر شمالی صوبوں میں رہتے ہیں۔

کارکنوں کا کہنا ہے کہ موسوی کی موت پرگیلان اور پورے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی بھڑکنے کا امکان ہوسکتا ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کی طرف سے سیکورٹی فورسز کی حراست کے دوران ہونے والی اموات کو بار بار دستاویز کیا گیا ہے، خاص طور پر ملک کی شیعہ تھیوکریسی کو چیلنج کرنے والے برسوں کے بڑے مظاہروں کے بعد۔

مہسا امینی کی موت کے معاملے میں، اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے ایران کو اس "جسمانی تشدد" کا ذمہ دار پایا جس کی وجہ سے ستمبر 2022 میں اس نوجوان خاتون کی موت واقع ہوئی تھی۔

یہ رپورٹ ایسوسی ایٹڈ پریس کی معلومات پر مبنی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG