رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر: عسکریت پسندوں کو پناہ دینے والوں کے مکانات ضبط اور مسمار کرنے کی کارروائیاں


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے علیحدگی پسند عسکریت پسندوں، ان کی مدد کرنے اور اپنے گھروں میں پناہ دینے والوں کے مکانات سیل کرنے، مسمار کرنے یا انہیں سرکاری تحویل میں لینے کے لیے کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔

گزشتہ جمعے کو ضلع پلوامہ میں کالعدم تنظیم جیشِ محمد کے ایک مبینہ رکن عاشق حسین نینگرو کے مکان کو پولیس اور ضلع انتظامیہ کے افسران کی موجودگی میں مسمار کیا گیا۔ تاہم پولیس حکام کا کہنا ہے کہ عاشق حسین نے چند برس پہلے سرکاری زمین پر زبردستی قبضہ کرکے یہ مکان تعمیر کیا تھا۔

حکام کے مطابق عاشق حسین گرفتاری سے بچنے کے لیے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے فرار ہوگیا ہے اور اس وقت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مقیم ہے۔

انہوں نے کہا کہ مکان کو پولیس نے مقامی تھانے میں غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق قانون کے تحت درج کیے گئے ایک مقدمے میں کچھ عرصہ قبل ضبط کرکے سیل کیا تھا اور جمعے کو قانونی لوازمات کو پورا کرنے کے بعد اسے ضلع انتظامیہ کے افسران کی موجودگی میں مسمار کرکے مقبوضہ اراضی کو بحقِ سرکار بحال کیا گیا ہے۔

پولیس کے ایک بیان میں کہا گیا کہ عاشق حسین کئی پُرتشدد اور دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہے اور اس وقت سرحد پار سے جیشِ محمد کی کارروائیوں کو منظم کرانے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔

پولیس کے مطابق عاشق حسین کو بھارت کے تفتیشی ادارے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی ( این آئی اے) نے تین سال پہلے ایک کیس کے سلسلے میں تفتیش کے لیے جموں میں اپنے دفتر پر طلب کیا تھا۔ لیکن وہ فروری2019 میں اپنے اہلِ خانہ سمیت لاپتا ہوگیا اور بعد میں معلوم ہوا کہ وہ اپنی بیوی، بیٹے اور دو بیٹیوں سمیت پاکستان فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا ہے۔مسمار کئے گئے مکان میں کوئی نہیں رہ رہا تھا ۔

عاشق حسین کے رشتے داروں نے بتایا کہ اُن کا ایک بھائی عباس نینگرو چھ جون2013 کو پُلوامہ کے گاؤں اچھ گوزہ میں سیکیورٹی فورسز کی ایک کارروائی کے دوران ہلاک ہوا تھا۔ پولیس نے اُس وقت کہا تھا کہ وہ جیشِ محمد کا ایک دہشت گرد تھا ۔ ان کے ایک اور بھائی ریاض احمد کو پولیس نے سری نگر، جموں شاہراہ پر واقع علاقے جہاجر کوٹلی سے 12 ستمبر2018 کو گرفتار کیا تھا۔

پولیس نے اُن پر الزام لگایا تھا کہ وہ اپنے ٹرک میں جیشِ محمد کے تین عسکریت پسندوں کو جو ابھی ابھی سرحد پار کرکے پاکستان سے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں داخل ہوئے تھے وادی کشمیر کی طرف لے جارہا تھا۔ یہ تینوں مبینہ عسکریت پسند اس موقعے پر سیکورٹی فورسز کے ساتھ ہوئے مقابلے میں ہلاک ہوئے تھے۔ عاشق حسین کے تیسرے بھائی منظور احمد کوجو پیشے سے ایک آشپاز تھا نامعلوم مسلح شخص نے رواں برس ۴ اگست کو پُلوامہ کے اگلر گاؤں میں گولی مارکر ہلاک کیا تھا ۔

پولیس کے مطابق عاشق حسین 29 نومبر 2016 کو جموں اور 14 فروری 2019 کو ضلع پلوامہ میں سیکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملوں میں ملوث رہا ہے۔

عاشق حسین کو بھارت کی وزارتِ داخلہ نے رواں برس اپریل میں غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق قانون کےتحت ایک "نامزد دہشت گرد" قرار دیا تھا۔اس سلسلے میں جاری کردہ ایک نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ وہ لائن آف کنٹرول کے راستے مسلح افراد کو جموں و کشمیر میں داخل کرارہا ہے۔

عسکریت پسندوں کو سخت پیغام دینے کا اقدام

تاہم بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 32 برس سے جاری شورش کے دوران یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پولیس نے کسی عسکریت پسند کا مکان مسمار کیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کارروائی کا مقصد علیحدگی پسندوں کو سخت پیغام دینا ہے۔

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک عسکری تنظیم 'دی رزسٹنس فرنٹ' یا ٹی آر ایف نے عاشق حسین کے گھر کو مسمار کرنے کی کارروائی پر شدید ردِ عمل ظاہر کیا ہے اور یہ دھمکی دی ہے کہ اس میں ملوث افسران چاہے وہ پولیس سے تعلق رکھتے ہوں یا ضلع انتظامیہ سے انہیں بخشا نہیں جائے گا۔

ٹی آر ایف کے بارے میں پولیس حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ کالعدم لشکرِ طیبہ کا ایک شیڈو گروپ ہے۔

نجی مکانات سیل کرنے کی کارروائی

اس سے پہلے پولیس نے سری نگر میں مزید چار ایسے نجی مکانات کی نشان دہی کی تھی جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ ان میں عسکریت پسندوں کو پناہ دی گئی تھی یا پولیس کے بقول، دہشت گرد کارروائیوں کے لیے استعمال کیا گیا۔

پولیس نے ان مکانوں کو غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق قانون کی دفعہ 25کے تحت ضبط کرنے کا اعلان کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ تحقیقات کے دوران پتا چلا ہے کہ13 ایسے افراد نے، جن کا تعلق ٹی آر ایف سے ہے اور جن کے خلاف این آئی اے کی ایک خصوصی عدالت میں فردِ جرم عائد کی گئی ہے، سرینگر کے برتھنہ قمر واری علاقے میں واقع ان مکانوں کو کمین گاہ کے طور پر استعمال کیا تھا۔

پولیس نے بتایا کہ اس سلسلے میں پہلے چھ ملزمان اور پھر ایک سرگرم عسکریت پسند شارق وانی کو گرفتار کیا گیا اور یہ سبھی عدالتی حراست میں بھیجے جانے کے بعد اس وقت مختلف جیلوں میں بند ہیں۔

تین مطلوب عسکریت پسند سیکیورٹی فورسز کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں مارے جاچکےہیں اور باقی ماندہ تین عسکریت پسند باسط ، مومن اور عمیس جنہوں نے ان مکانوں کو کمین گاہ کے طور پر یا پُر تشدد کارروائیاں انجام دینے کے لیے استعمال کیا تھا فرار ہیں۔

مکانات کی ضبطی

پولیس کے خصوصی تحقیقاتی اداروں نے جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر یا اس کے زیرِ اہتمام تعلیمی ادارے فلاحِ عام ٹرسٹ کے درجنوں اسکول کی عمارتوں ، اراضی، میوے کے باغات اور دیگر غیر منقولہ جائیدادوں کو بھی حالیہ مہینوں میں ضبط یا سیل کیا ہے۔

جنوبی ضلع اننت ناگ میں نومبر کے آخری ہفتے میں ضلع مجسٹریٹ کی طرف سے جاری کردہ حکم نامے کے مطابق 11 ایسی جائیدادیں ضبط کی گئیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں جماعتِ اسلامی اور فلاحِ عام ٹرسٹ کی ایسی 188 غیر منقولہ جائیدادوں کی نشاندہی کی گئی ہے جنہیں ان کے غیر قانونی استعمال کو روکنے کے لیے ضبط کیا جارہا ہے۔

بھارتی حکومت نے فروری 2019 میں جماعت اسلامی جموں و کشمیر پر ملک دشمن اور تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگاکر اس پر غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق قانون کے تحت پانچ سال کے لیے پابندی عائد کی تھی۔

بھارتی کشمیر میں پنڈت ایک بار پھر نقل مکانی کیوں کر رہے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:02 0:00

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے رواں برس جون میں فلاحِ عام ٹرسٹ کے زیرِ اہتمام چلنے والے تمام اسکولوں کو بند کرنے کے احکامات صادر کیے تھے اور اس کے ساتھ ہی ضلع مجسٹریٹوں نے اس کی جائیدادوں کو ضبط کرنے کی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔

جموں و کشمیر اسٹیٹ انوسٹیگیشن ایجنسی کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ان جائیدادوں کو ضبط کرنے سے علیحدگی پسندانہ سرگرمیوں کے لیے رقومات کی فراہمی کو روکا جاسکے گا اور دہشت گرد نیٹ ورکس ختم کرنے میں مدد ملے گی۔

گزشتہ ماہ بھارت کے انفورسمنٹ ڈائیریکٹوریٹ نے سرکردہ علیحدگی پسند رہنما شبیر احمد شاہ کے سری نگر کے حیدر پورہ بائی پاس علاقے میں واقع ایک رہائشی مکان کو ٹیرر فنڈنگ کے ایک معاملے میں سیل کیا تھا۔

شبیر شاہ کو انفورسمنٹ ڈائیریکٹوریٹ نے جولائی 2017 میں مبینہ دہشت گردی کی فنڈنگ کے ایک مقدمے کے سلسلے میں گرفتار کیا تھا جب سے وہ دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں۔ تاہم ان کے حیدر پورہ بائی پاس علاقے میں واقع گھر کو علیحدہ مقدمے کے سلسلے میں ضبط کیا گیا ہے ۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی سابق وزیرِ اعلیٰ اور اپوزیشن پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے پولیس اور دیگر سرکاری اداروں کی طرف سے تشدد اور دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر نجی املاک کو ضبط یا سیل کرنے کی حالیہ کارروائیوں کی مذمت کی تھی ۔البتہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی کسی سیاسی پارٹی یا لیڈر نے تاحال عسکریت پسندوں کے مکانوں کو منہدم کرنے پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG