رسائی کے لنکس

بھارت میں ریاستی اتنخابات کے نتائج، بی جے پی کا مستقبل کیا ہوگا؟


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

بھارت کی دو ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کے مکمل نتائج آگئے ہیں جن کے مطابق مرکز میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے گجرات میں ریکارڈ کامیابی حاصل کی لیکن ہماچل پردیش میں بی جے پی اپنی حکومت برقرار نہیں رکھ پائی۔ ریاستی انتخابات کے ان نتائج پر بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر بی جے پی نے ایک گول کیا ہے کہ تو حزبِ اختلاف انتخابی میدان میں دو گول کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

رواں ماہ بھارت کی ریاست گجرات میں ہونے والے انتخابات کے بعد بی جے پی مسلسل ساتویں بار وہاں اپنی حکومت بنانے میں کامیاب رہی ہے۔ گجرات میں بی جے پی کو 1995 کے بعد کسی ریاستی انتخاب میں ناکامی نہیں ہوئی ہے اور اس بار بھی اس نے کامیابی کا تسلسل برقرار رکھا ہے۔

مبصرین کے مطابق یہ بظاہر بی جے پی کی بہت بڑی کامیابی ہے اور مین اسٹریم میڈیا بھی اسے اسی انداز میں پیش کر رہا ہے۔ لیکن ان کے مطابق اگر دیگر انتخابات کے مجموعی نتائج کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ بی جے پی نے ایک گول کیا ہے تو حزبِ اختلاف نے دو گول کیے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق بی جے پی نے گجرات میں پھر کامیابی حاصل کی جب کہ ہماچل پردیش میں اس نے اپنی حکومت گنوا دی ہے۔ وہاں کانگریس کو کامیابی ملی اور اس کی حکومت قائم ہو گئی ہے۔

دہلی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں بی جے پی کو 15 برس کے بعد شکست ہو گئی اور ریاست میں حکمراں جماعت عام آدمی پارٹی نے کامیابی حاصل کی ہے جب کہ مختلف حلقوں میں ہونےو الے سات ضمنی انتخابات میں سے بھی بی جے پی نے دو نشستیں جیتی ہیں۔

بھارت میں جن سات حلقوں پر ضمنی انتخابات ہوئے ہیں ان میں اترپردیش کی تین نشستیں جب کہ بہار، راجستھان، اڑیسہ اور چھتیس گڑھ کے ایک ایک حلقے پر ضمنی انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں بی جے پی بہاراور یوپی میں رامپور کی نشست حاصل کرنے میں ہی کامیاب ہوسکی ہے۔

گجرات کے نتائج اورمستقبل کا منظر نامہ

انتخابی نتائج کی روشنی میں کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبولیت اب بھی برقرار ہے۔ اس کے ثبوت میں وہ گجرات کا نتیجہ پیش کرتے ہیں جہاں بی جی پی نہ صرف اپنی حکومت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے بلکہ اس نے ریاستی انتخابت میں اب تک کی سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ البتہ متعدد تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ گجرات کے نتائج کی بنیاد پر 2024 کے انتخابات کے بارے میں اندازہ لگانا درست نہیں ہوگا۔

ان کے بقول گجرات بی جے پی اور خاص طور پر نریندر مودی کا گڑھ ہے۔ مودی اور امت شاہ دونوں کا تعلق اسی ریاست سے ہے۔ نریندر مودی وزیر اعظم بننے سے قبل13 سال تک وہاں کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ اسی طرح گجرات دوسری ریاستوں سے بڑی حد تک مختلف ہے۔ مبصرین کے مطابق ہندوتوا سیاست کا سب سے زیادہ اثر گجرات ہی پر ہے۔

سینئر تجزیہ کار ہرویر سنگھ کہتے ہیں کہ گجرات میں کانگریس اصل اپوزیشن پارٹی تھی جسے عام آدمی پارٹی کی مہم کی وجہ سے نقصان پہنچا۔

دوسرے تجزیہ کاروں کا بھی یہی کہنا ہے کہ اروند کیجری وال نے اپنی انتخابی مہم کانگریس کی مخالفت پر مرکوز رکھی تھی۔ انھوں نے صرف کانگریس کے زیرِ اثر علاقوں میں انتخابی مہم چلائی اور اپنی تقریروں میں کانگریس کو جانے والے ووٹ کے مجوزہ نقصانات بتاتے رہے۔ ان کے خیال میں کانگریس کی انتخابی مہم بھی بہت کمزور رہی اور اسے نقصان پہنچا۔

مودی کا ووٹ بینک

ہرویر سنگھ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مزید کہا کہ بی جے پی کے پاس مودی کے علاوہ کوئی چہرہ نہیں ہے۔ وہ صرف مودی کے چہرے پر الیکشن لڑتی ہے۔ لیکن انتخابی نتائج نے بتا دیا کہ ہر جگہ مودی کے چہرے پر ووٹ نہیں مل سکتے۔

بھارت میں انسانی اور مذہبی حقوق کی صورتحال خراب ہے، تجزیہ کار
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:52 0:00

مبصرین کے بقول مودی نے ہماچل پردیش میں عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ امیدوار کو نہ دیکھیں بلکہ ان کا چہرہ دیکھیں۔ وہ یہ سمجھیں کہ وہ مودی کو ووٹ دے رہے ہیں۔ لیکن وہاں بی جے پی ہار گئی۔ اسی طرح ضمنی انتخابات میں بھی مودی کا جادو نہیں چلا۔

متعدد تجزیہ کاروں نے اخبارات کے لیے لکھے اپنے تجزیاتی مضامین میں کہا ہے کہ بظاہر وزیر اعظم نریندر مودی اب بھی ایک مقبول رہنما ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں بھی ان کا جادو چل جائے۔تاہم ان کے خیال میں نریند رمودی انتخابات جیتنے کے فن میں ماہر ہیں۔

ہرویر سنگھ کہتے ہیں اگر ہم حالیہ انتخابات کو مجموعی طور پر دیکھیں تو ان میں گجرات کا عکس دکھائی نہیں دیتا۔ اگر اگلے پارلیمانی انتخابات میں حزبِ اختلاف کی جانب سے ایشوز کو اچھی طرح اٹھایا گیا اور جس طرح بی جے پی انتخابی مہم چلاتی ہے اسی طرح اپوزیشن نے بھی چلائی تو بی جے پی کو ہرایا جا سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں اب بی جے پی کو احساس ہو جانا چاہیے کہ مودی کے چہرے پر ہر جگہ انتخابات نہیں جیتے جا سکتے۔ سچ بات یہ ہے کہ اب مودی کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ لیکن تجزیہ کاروں کے ایک حلقے کا دعویٰ ہے کہ مودی کی مقبولیت 2024 میں بھی اپنا اثر دکھائے گی۔

ہرویر سنگھ کے مطابق 2023 میں متعدد ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں جن میں کرناٹک، چھتیس گڑھ، راجستھان اور مدھیہ پردیش قابل ذکر ہیں۔

ان کے خیال میں موجودہ انتخابات کی روشنی میں یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ 2024 میں بھی بی جے پی کامیاب ہو جائے گی۔ البتہ 2023میں ہونے ہونے والے اسمبلی انتخابات 2024 کی تصویر کو بڑی حد تک واضح کر دیں گے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG