پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں توہینِ مذہب کے الزم پر ہجوم کے ہاتھوں سری لنکا کے شہری کے لرزہ خیز قتل اور اُس سے پہلے بھی انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر سیاسی جماعتوں اور مذہبی رہنماؤں نے شدید مذمّت اور گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
گزشتہ جمعے کو صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں ایک کارخانے کے ملازمین اور علاقے کے دیگر افراد پر مشتمل ہجوم نے توہینِ مذہب کے الزام میں تشدد کے بعد سری لنکا کے شہری اور فیکٹری کے ایکسپورٹ مینیجر پریانتھا کمارا کو قتل کر کے لاش کو سرِعام نذرِ آتش کر دیا تھا۔
ملکی و عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق سیالکوٹ واقعے کے علاوہ بھی پاکستان میں حال ہی میں انتہا پسندی سے جڑے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں چارسدہ میں ایک ہجوم کا توہینِ مذہب کے ملزم کی تلاش میں پولیس تھانے پر حملہ اور پولیس کی پسپائی، قبائلی اور دیگر علاقوں میں ہدف بنا کر قتل کیے جانے والے واقعات میں اضافے کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی کے رجحان میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
وزیرِاعظم عمران خان کی حکومت سے مختلف نقطۂ نظر رکھنے والی سیاسی جماعتوں اور اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے ایسے واقعات کو عالمی سطح پر ملک و قوم کے تشخص کو مسخ کرنے کی وجہ قرار دیا ہے۔
بعض سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انتہا پسندی میں ملوث عناصر کے ساتھ حکومتی سمجھوتوں اور ان کے ساتھ نرم رویہ رکھنے سے معاشرے میں شدت پسندی بڑھ رہی ہے۔
خیال رہے کہ حال ہی میں حکومتِ پاکستان نے مذہبی تنظیم تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے ساتھ معاہدہ کیا تھا جب کہ کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ بھی حکومت نے مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں۔
'یہاں موب جسٹس فروغ پا رہا ہے'
حکومتی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما سینیٹر فیصل سبزواری سیالکوٹ واقعے کو شرمناک قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اور اُنہیں شرمندگی اور خوف اس بات کا ہے کہ شاید یہ آخری واقعہ بھی نہیں ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جس طرح ہمارے ہاں ایسے واقعات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس 'ہجوم' کو قوم بنانے کے لیے جو نظریاتی تربیت درکار تھی وہ ہم نے نہیں کی۔
فیصل سبزواری کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کے دیگر اسلامی ممالک میں مذہب کے نام پر ایسے واقعات نہیں ہوتے، کیوں کہ پیغمبرِ اسلام کے نام پر کسی کے ساتھ ظلم کرنے سے بڑی توہین کوئی نہیں ہو سکتی۔
فیصل سبزواری کہتے ہیں کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین موجود ہیں، اگر کوئی واقعی مجرم ہے تو قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنا چاہیے، لیکن افسوس یہ ہے کہ ہمارے ہاں 'موب جسٹس' کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ جائیداد، کاروباری تنازعات، ملازم اور آجر کے اختلافات پر بھی کسی سے انتقام لینے کے لیے توہینِ مذہب کے الزامات لگا دیے جاتے ہیں اور قاتلوں کی حوصلہ شکنی کے بجائے اُنہیں ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے جو بدقسمتی ہے۔
'چار دہائیوں کے ریاستی بیانیے کے نتائج اب تک بھگت رہے ہیں'
پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے ہم نے گزشتہ چار دہائیوں میں شدت پسندانہ بیانیے کو نہ صرف اپنے ملک اپنے ہمسایہ ملک (افغانستان) میں بھی فروغ دیا جس کے نتائج آج ہم بھگت رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس وقت مغرب کو اپنا مفاد عزیز تھا، لہذٰا اُن کے لیے بھی اس وقت یہ بیانیہ قابلِ قبول تھا۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر کہتے ہیں کہ ایسے واقعات کے بعد مذمتی بیانات تو آتے ہیں، لیکن جب ایسے ملزمان کو عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے تو اُن پر پھول برسائے جاتے ہیں۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر کے بقول پاکستان میں شدت پسندی پر دو ٹوک مؤقف رکھنے والی سیاسی جماعتیں بھی اس کی بھاری قیمت چکاتی رہی ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ افسوس یہ ہے کہ عمران خان حکومت طالبان اور دیگر انتہا پسند تنظیموں کے ساتھ خفیہ سمجھوتے کر رہی ہے جس کا نقصان معاشرے کو اُٹھانا پڑ رہا ہے۔
مصطفی نواز کھوکھر کہتے ہیں کہ حال ہی میں حکومت نے ٹی ایل پی کے ساتھ خفیہ سمجھوتہ کیا اور گھٹنے ٹیک دیے اور کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ اس سمجھوتے میں کیا ہے۔
'آئین و قانون کی بالادستی کے بغیر ریاست قائم نہیں رہ سکتی'
پاکستان میں اہل تشیعہ کی ایک نمائندہ مذہبی جماعت مجلسِ وحدت مسلمین کے نائب سربراہ ناصر شیرازی کہتے ہیں کہ آئین اور قانون کی عمل داری کے بغیر ریاست کی بقا خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
اُن کے بقول پاکستان میں جن افراد نے ریاست کے خلاف ہتھیار اُٹھائے، عام شہریوں، معصوم بچوں اور فوجیوں کو ہلاک کیا، آج ریاست اُن کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔
ناصر شیرازی کے بقول 80 ہزار پاکستانیوں کے قاتل، اسٹرٹیجک اثاثوں کو تباہ کرنے والوں کے ساتھ مذاکرات کر کے شاید ریاست یہ سمجھتی ہے کہ شدت پسندی ختم ہو جائے گی، تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اب یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ جو جتنا ظالم ہے وہ اتنا ہی طاقت ور ہے۔ چارسدہ یونیورسٹی میں مشال خان کا قتل اور اب سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کا قتل اس کی تازہ مثالیں ہیں جہاں ہجوم نے فیصلے کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
ناصر شیرازی کہتے ہیں کہ یہ صورتِ حال عام شہریوں میں تشویش بڑھا رہی ہے جب کہ ملک میں موجود اقلیتیں بھی اب خوفزدہ دکھائی دیتی ہیں۔
اُن کے بقول آج اگر ریاست کا عام شہری محفوظ نہیں تو پھر کل کو ریاست بھی نشانے پر ہو گی۔ لہذٰا ریاست کو بچانا ہے تو پھر ہمیں جاگنا ہو گا۔ سول سوسائٹی اور عوام کی اکثریت سیالکوٹ واقعے پر شرمندگی کا اظہار کر رہی ہے۔ کیوں کہ ایسے واقعات کا اثر صرف ایک علاقے تک محدود نہیں رہتا۔ لہذٰا ریاست کو ہوش کے ناخن لے کر ایسے عناصر کی بیخ کنی کے لیے سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔
رُکن قومی اسمبلی اور چیئرمین نیشنل ڈیمو کریٹک موومنٹ محسن داوڑ حکومت اور کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کے مذاکرات پر کہتے ہیں کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت ان کے سامنے گھٹنے ٹیک رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ تحریکِ طالبان پاکستان اور تحریکِ لبیک کے ساتھ ریاست کے حالیہ معاملات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریاست کمزوری دکھا رہی ہے۔
اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ تحریکِ طالبان اور افغان طالبان ایک ہی ہیں جب تک ہم دونوں کو ایک نظر سے نہیں دیکھیں گے ہمارے ہاں شدت پسندی اور انتہا پسندانہ سوچ ختم نہیں ہو گی۔
'حالات صرف اقلیتوں کے لیے ہی نہیں بلکہ سب کے لیے خراب ہوں گے'
بابا گروپال سنگھ خیبر پختونخوا میں سکھ برادری کے رہنما ہیں۔ انہوں نے وی او اے سے گفتگو میں کہا حالات صرف اقلیتوں کے لیے خراب نہیں ہوں گے سب کے لیے خراب ہوں گے۔
اُن کے بقول ہم سب سے زیادہ پاکستانی اس لیے ہیں کہ اس دھرتی کو ماں سمجھتے ہیں اس زمین پر ہمارے واہے گُرو کا جنم بھی ہوا اور وہ دنیا سے جانے تک بھی یہیں رہے۔ پاکستان کی ریاست اور حکومت اس ملک کی بھلائی کے لیے جو کچھ بھی کرے گی ہم ان کے ساتھ ہوں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ حالات کئی بار خراب ہوئے اور پھر بہتر ہوئے۔ ہم پاک فوج کے ساتھ کھڑے ہیں حکومت سے پُر اُمید ہیں جو باقی سب پر گزرے گی وہ ہم پر بھی گزرے گی۔ اگر دیکھا جائے تو ماضی میں اقلیتوں سے زیادہ تو اکثریت کے لوگ ہلاک ہوئے۔
کیا فواد چوہدری نے ریاست کی ناکامی کا اعتراف کر لیا؟
سیالکوٹ واقعے پر ردِعمل دیتے ہوئے پاکستان کے وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ ہم نے معاشرے میں ٹائم بم لگا دیے ہیں جو اب پھٹ رہے ہیں۔
اُن کے اس بیان کو بعض حلقے شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے ریاست کی ناکامی کا اعتراف قرار دے رہے ہیں۔
اس معاملے پر فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ ریاست کی تیاری صرف حربی یا عسکری نوعیت کی نہیں ہوتی بلکہ نظریاتی نوعیت کی بھی ہوتی ہے۔
اُن کے بقول اگر ریاست طے کر لے کہ کوئی بھی گروہ ریاست کو یرغمال نہیں بنا سکتا تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ریاست کی نظریاتی اساس مضبوط کی جائے اور اس کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ سے سختی سے نمٹا جائے۔
فیصل سبزواری کے بقول ہمارے ہاں سیاسی مصلحتوں کے باعث شدت پسند عناصر کے ساتھ ہاتھ ملائے جاتے رہے اور یہی ہماری بدقسمتی ہے۔
وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے بین المذاہب ہم آہنگی حافظ طاہر اشرفی کہتے ہیں کہ فواد چوہدری کا بیان درست تناظر میں نہیں دیکھا گیا۔
اُن کے بقول زمین پر خدا کے بعد سب سے زیادہ طاقت ور ریاست ہی ہوتی ہے۔ پاکستان میں ریاست اتنی طاقت ور تھی کہ دہشت گردی جیسے معاملے پر قابو پایا جا چکا ہے۔ ریاست کا کام صرف گولی چلانا نہیں ہوتا ریاست ماں کے جیسی بھی ہوتی ہے۔
حافظ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ میں بالکل نہیں مانتا کہ ریاست نے تحریک لبیک کے معاملے میں “سرنڈر” کیا۔ کچھ چیزیں کو ضرور تسلیم کیا گیا مگر تحریک لبیک نے بھی اپنا رویہ تبدیل کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اُنہوں نے سیالکوٹ واقعے کی بھرپور مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ سری لنکن شہری کے قتل میں ملوث افراد کو سزا دی جائے۔ تو یہ تبدیلی ہی ہے۔
'پاکستانی ریاست مضبوط اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے'
حافظ طاہر اشرفی نے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے خدشات کا رد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ریاست مضبوط اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے پرعزم بھی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ ریاست دہشت گردی کے معاملے پر نرم رویہ اختیار کر رہی ہے بلکہ اُن کے بقول حقیقت یہ ہے کہ ملک جس شدت پسندی کا شکار نظر آ رہا ہے وہ 40 برس کے جنگی حالات، تنقید کرنے والی انہی سیاسی جماعتوں کی غلط پالیسی اور عالمی و علاقائی حالات کا نتیجہ ہے۔
طاہر اشرفی کہتے ہیں کہ 40 برس سے ہم ایک طرح کی حالتِ جنگ میں ہیں۔ ہمارے پڑوس میں بھی جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بھی اثرات یہاں آئے ہیں۔
'مذاکرات کے ذریعے ٹی ایل پی اعتدال پسندی کی جانب آئے تو کیا مضائقہ ہے؟'
سری لنکن شہری کے قتل کے بعد ریاست کے تحریکِ لبیک کے ساتھ معاملات پر ہونے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے حافظ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی نے گزشتہ عام انتخابات میں 22 لاکھ ووٹ لیے تھے۔ تو کیا ہم 22 لاکھ لوگوں کو جیلوں میں ڈال دیں؟ ہم صرف ان کے ساتھ مکالمہ ہی کر سکتے ہیں۔
اُن کے بقول اگر مذاکرات کے ذریعے وہ انتہا پسندی کی سوچ ترک کر کے اعتدال پسندی کی جانب آ جاتے ہیں تو اس سے بڑی کیا بات ہو سکتی ہے۔
تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے سوال پر حافظ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ امریکہ نے بھی افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے، لہذٰا اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ریاست ایسے عناصر کے خلاف ماضی میں اپنی طاقت بھی دکھا چکی ہے۔ لہذٰا مذاکرات کا دروازہ بھی کھلا رکھنا چاہیے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ماضی کی نواز شریف اور آصف زرداری کی حکومتوں کے دوران بھی دہشت گردی تنظیموں کے ساتھ مذاکرات ہوتے رہے، لہذٰا صرف تحریک انصاف کی حکومت پر تنقید کرنا مناسب نہیں ہے۔