وائٹ ہاؤس نے شمالی کوریا کی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے دورۂ امریکہ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے اس دورے کے دوران وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو مہمان رہنما سے مذاکرات کریں گے۔
کم یونگ چول شمالی کوریا کے انٹیلی جنس ادارے کے سابق سربراہ اور شمالی کوریا کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے نائب چیئرمین ہیں جو منگل کو بیجنگ سے ایئرچائنا کی ایک پرواز کے ذریعے نیویارک روانہ ہوئے تھے۔
مغربی ذرائع ابلاغ نے کم یونگ چول کی بیجنگ کے ہوائی اڈے پر لی جانے والی تصویریں نشر کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وہ امریکہ جانے والی پرواز میں سوار ہوئے ہیں جس کے بعد وائٹ ہاؤس نے بھی ان کے دورے کی تصدیق کردی تھی۔
بعد ازاں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ کم یونگ چول کا دورہ ان کے خط کا ٹھوس جواب ہے جس پر وہ ان کے شکر گزار ہیں۔
صدر ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کے نام اپنے ایک خط میں دونوں رہنماؤں کے درمیان 12 جون کو سنگاپور میں ہونے والی ملاقات منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
لیکن بعد ازاں شمالی کوریا کے مثبت جواب اور ملاقات پر اصرار کے بعد اگلے ہی روز صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ملاقات کے انعقاد کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان رابطے جاری ہیں۔
بعد ازاں امریکہ کے ایک وفد نے شمالی و جنوبی کوریا کی سرحد پر واقع غیر فوجی علاقے کا دورہ کیا تھا جہاں اس نے تین روز تک شمالی کورین حکام کے ساتھ بات چیت کی تھی۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات کا مقصد سربراہی اجلاس کے ایجنڈے کی تفصیلات طے کرنا تھا۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ کم یونگ چول کے دورۂ امریکہ کا مقصد بھی سربراہی ملاقات کی تیاریوں پر بات چیت کرنا ہے اور ان کی امریکی وزیرِ خارجہ سے ملاقات میں مجوزہ سربراہی اجلاس سے متعلق امور پر غور کیا جائے گا۔
کم یونگ چول شمالی کورین فوج کے فور اسٹار جنرل ہیں اور ان کا شمار کم جونگ ان کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔
امریکی تھنک ٹینک 'ولسن سینٹر' کے کوریا پروگرام کی سربراہ جین لی کا کہنا ہے کہ کم یونگ چول شمالی کوریا کے سربراہ کے نہ صرف اسٹریٹیجکل معاملات پر مشیر ہیں بلکہ وہ اپنے رہنما کی خواہشات کے ترجمان بھی سمجھے جاتے ہیں۔
جین لی کے بقول کم یونگ چول دراصل کم جونگ ان کی طرف سے مذاکرات کے لیے امریکہ آرہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شمالی کوریا کی حکومت اس سربراہی اجلاس سے متعلق کتنی سنجیدہ ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف جو ہیگن کی سربراہی میں ایک امریکی وفد سنگاپور میں بھی موجود ہے جو وہاں سربراہی اجلاس کی تیاریوں کا جائزہ لے رہا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ سینڈرز کا کہنا ہے کہ یہ تمام رابطے اس لیے ہورہے ہیں کہ اگر سربراہی اجلاس 12 جون کو ہی ہوا تو اس کے لیے تیاری مکمل کرلی جائے۔ اور اگر کسی وجہ سے یہ ملاقات موخر ہوئی تو ان کے بقول امریکہ اس کے لیے بھی تیار ہوگا۔
امریکی حکام کا کہناہے کہ آئندہ چند روز کے دوران امریکہ اور اس کے اتحادیوں اور شمالی کوریا کے مابین مزید رابطے اور وفود کے تبادلے ہوں گے۔