ورلڈ بینک نے پیر کو بتایا کہ دنیا کے کم آمدنی والے ممالک پر قرضوں کے بوجھ میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے اور کوویڈ 19 کے وبائی مرض کے نتیجے میں 2020 میں یہ قرضے 860 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئے۔ بینک نے قرضوں کی سطح کم کرنے کے لیے فوری کوششوں پر زور دیا ہے۔
عالمی بینک کے صدر ڈیوڈ مالپس نے صحافیوں کو بتایا کہ بینک کے بین الاقوامی قرضوں کے اعداد و شمار سے متعلق 2022 کی رپورٹ میں کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کو درپیش قرضوں کے خطرات میں ڈرامائی اضافے کی نشاندہی ہوتی ہے۔ انہوں نے ایسی جامع کوششوں پر زور دیا جن کی مدد سے ملکوں کو قرضوں کی قابل برداشت سطح تک پہنچنے میں مدد مل سکے۔
مالپس نے نئی رپورٹ کے ساتھ اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہمیں قرض کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے، جس کی مدد سے قرضوں میں کمی، ان کی تنظیم نو اور ان میں بہترشفافیت لائی جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے آدھے غریب ممالک بیرونی قرضوں کے مسئلے میں گرفتار ہیں یا انہیں بیرونی قرضوں کے خطرات لاحق ہیں۔
مالپس کا کہنا تھا کہ ان ملکوں کو معاشی بحالی اور غربت میں کمی کے لیے قابل برداشت قرضوں کی سطح تک پہنچنے میں مدد کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کم اوردرمیانی آمدنی والے ممالک کے بیرونی قرضوں کی سطح 2020 میں 5 اعشاریہ 3 فیصد بڑھ کر 8 اعشاریہ 7 ٹریلین ڈالر تک پہنچ گئی، جس سے تمام خطوں کے ممالک متاثر ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ بیرونی قرضوں میں اضافے سے مجموعی قومی آمدنی (جی این آئی) اور برآمدات میں اضافہ ہوا، جس سے 2020 میں چین کے علاوہ، بیرونی قرض سے جی این آئی کا تناسب 2020 میں پانچ فیصد پوائنٹس بڑھ کر 42 فیصد ہو گیا، جب کہ ان ملکوں کا قرض اور برآمد کا آپس کا تناسب بڑھ گیا جو 2019 میں 126 فیصد تھا اور 2020 میں یہ تناسب 154 فیصد تک پہنچ گیا۔
مالپس نے کہا کہ دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کے گروپ کی جانب سے قرض سروس معطلی کی پیش کش، یعنی ڈی ایس ایس آئی، اس سال کے آخر میں ختم ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے ضروری ہے کہ رواں سال کے آخر تک قرضوں کی تنظیم نو کر لی جائے۔ اس اقدام کے تحت قرضوں کی ادائیگی کو عارضی طور پر مؤخر کرنے کی پیش کش کی گئی ہے۔
گروپ 20 اور پیرس کلب میں شامل قرض دینے والوں نے پچھلے سال قرضوں کے از سر نو تعین کا ایک پروگرام شروع کیا تھا جس سے پروگرام کی شرائط پر پورے اترنے والے ممالک فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ لیکن اس پروگرام کے لیے ابھی تک صرف ایتھوپیا، چڈ اور زیمبیا نے درخواستیں دی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بین الاقوامی قرض دہندگان کی جانب سے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کو دیے جانے والے قرضے 2020 میں بڑھ کر 117 ارب ڈالر تک پہنچ گئے جو کہ ایک عشرے کے دوران قرضوں کی بلند ترین سطح ہے۔
کم آمدنی والے ممالک کو ملنے والا قرضہ 25 فیصد بڑھ کر 71 ارب ڈالر ہو گیا جس میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور دیگر کثیر جہتی قرض دہندگان کی جانب سے فراہم کیا جانے والا 42 ارب ڈالر کا قرضہ شامل ہے، جو ایک عشرے کی بلند ترین سطح ہے۔
عالمی بینک کے چیف اکنامسٹ کارمین رین ہرٹ نے کہا ہے کہ شرح سود میں اضافے کے باعث انتہائی مقروض ممالک کو درپیش چیلنجز مزید ابتر شکل اختیار کر سکتے ہیں۔
عالمی بینک نے کہا کہ اس نے 2022 کی اپنی رپورٹ میں توسیع کی ہے تاکہ بیرونی قرضوں کے بارے میں مزید تفصیل اور الگ الگ ڈیٹا فراہم کر کے عالمی قرضوں کی سطح کے بارے میں شفافیت کو بڑھایا جا سکے۔
قرضوں سے متعلق اب جو اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں، ان میں اب قرض لینے والے ملک کے مجموعی بیرونی قرضوں کی مکمل تفصیل شامل ہے جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ اس کے سرکاری اور نجی قرضے کیا ہیں۔ اس ملک کی کرنسی کی نوعیت کیسی ہے اور اسے قرضہ کن شرائط پر ملا ہے۔
قرضوں کی ادائیگی کو مؤخر کرنے کے پروگرام کے اہل ممالک کے بارے میں عالمی بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2020 میں کن ممالک نے اس سے فائدہ اٹھایا اور 2021 تک ان کے واجب الادا قرض کی ماہانہ ادائیگی کیا تھی۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں)