پاکستان پیپلز پارٹی نے حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی جانب سے شوکاز نوٹس کو مسترد کرتے ہوئے اتحاد کے تمام عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔
پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلسِ عاملہ کے اجلاس کے بعد پیر کو کراچی میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کوئی بھی جماعت ان پر اپنے فیصلے مسلط نہ کرے۔ ماضی میں ملک میں بننے والے سیاسی اتحادوں میں کبھی شوکاز نوٹسز دینے کی روایت نہیں رہی۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی سیاست عزت اور برابری کی بنیاد پر ہوتی ہے اور اس پر ہم کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
اُنہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہیں یا پیپلزپارٹی اور بلاول بھٹو زرداری سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔
یاد رہے کہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے کے لیے حکومتی بینچز کے سینیٹرز سے ووٹ لینے پر پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو شوکاز نوٹس جاری کیا تھا۔
اتحاد میں شامل جماعتوں کے مابین پارلیمینٹ سے مستعفی ہونے کے معاملے پر بھی اختلافات سامنے آئے تھے۔
اپوزیشن کے حکومت مخالف اتحاد میں پہلی دراڑ اس وقت پڑی تھی جب عوامی نیشنل پارٹی نے شوکاز نوٹس ملنے پر اتحاد سے الگ ہونے کا اعلان کیا تھا۔
پی ڈی ایم کے مستقبل سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پی ڈی ایم کی بنیاد اُنہوں نے رکھی تھی۔ لہذٰا پیپلزپارٹی اور اے این پی کے بغیر یہ صرف 'استعفوں کا اتحاد' رہ جائے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ ایٹم بم ہے اور یہ آخری آپشن ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ وہ اب بھی سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کو ورکنگ ریلیشن شپ رکھنا چاہیے۔ تاہم جب تک پیپلزپارٹی اور اے این پی سے غیر مشروط معافی نہیں مانگی جاتی اس وقت تک آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ہم پوچھتے ہیں کہ 26 مارچ کے لانگ مارچ کو استعفوں سے مشروط کیوں کیا گیا؟
پی ڈی ایم میں پیپلزپارٹی کے عہدے دار
گزشتہ سال ستمبر میں بلاول بھٹو کی جانب سے اسلام آباد میں بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کے دوران وجود میں آنے والے پی ڈی ایم اتحاد میں مختلف اپوزیشن جماعتوں کو نمائندگی دی گئی تھی۔
پیپلزپارٹی کے رہنما اور سابق وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف کے پاس سینئر نائب صدر کا عہدہ تھا جب کہ پارٹی رہنما قمر زمان کائرہ پنجاب کے نائب صدر، نثار کھوڑو سندھ کے نائب صدر جب کہ اسٹیئرنگ کمیٹی میں یوسف رضا گیلانی اور فرحت اللہ بابر شامل تھے۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ اگر پیپلزپارٹی شوکاز نوٹس کی واپسی چاہتی ہے تو پھر سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ بھی اسے واپس کرنا چاہیے۔
لاہور میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ پیپلزپارٹی کو یہ وضاحت دینا ہو گی کہ اس نے حکومتی سینیٹرز سے ووٹ کیوں لیے۔
'اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے'
پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نائب صدر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی علیحدگی کے باوجود حکومت مخالف جدوجہد جاری رکھے گی۔
عبدالغفور حیدری کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو اس دن اتحاد سے الگ ہو جانا چاہیے تھا جس دن اس نے پی ڈی ایم کے متفقہ فیصلے کی نفی کرتے ہوئے حکومتی سینیٹرز کی مدد سے سینیٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف کا منصب حاصل کیا تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا پی ڈی ایم سے معافی کا مطالبہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کی مثال ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر قواعد کی بات کی جائے تو پیپلز پاٹی کو نہ صرف معافی مانگنی چاہیے بلکہ سینیٹ سے قائدِ حزب اختلاف کے منصب سے مستعفی بھی ہونا چاہیے۔
'حکومت پر دباؤ مزید کم ہو گا'
مبصرین کا کہنا ہے کہ حزبِ اختلاف کے اتحاد میں دراڑ سے حکومت پر دباؤ کم ہو گا اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں حکومت مخالف جدوجہد کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے خلاف بھی صف آرا رہیں گی۔
سیاسی امور کے تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری کہتے ہیں کہ بلاول بھٹو کے بیان سے واضح ہو گیا ہے کہ پیپلز پارٹی اب پی ڈی ایم سے علیحدہ رہ کر اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام کی قیادت کے بیانات سے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی اور اے این پی کی واپسی میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔
حسن عسکری کہتے ہیں کہ اپوزیشن کی تقسیم سے حکومت مخالف تحریک کی شدت میں کمی واقع ہوئی ہے جس کا فایدہ حکومت کو ہوا ہے لیکن ان کے بقول دباؤ میں یہ کمی مستقل یا مکمل طور پر ختم نہیں ہو گی۔
حکومت کا ردِعمل
وزیرِ اعظم پاکستان کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گل کہتے ہیں کہ یہ اتحاد کرپشن اور ذاتی مفادات کے لیے بنا تھا اور یہ کبھی بھی حکومت کے لیے خطرہ نہیں رہا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی وجہ سے ملک اس حالت کو پہنچا جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کی حکومت کے لیے پہلے دو سال بہت مشکل رہے۔