ملکہ برطانیہ کے شوہر اور ڈیوک آف ایڈنبرا شہزادہ فلپ انتقال کر گئے ہیں۔ ان کی عمر 99 برس تھی۔
شاہی خاندان کے جاری کردہ بیان کے مطابق شہزادہ فلپ کا انتقال جمعے کو لندن کے مغرب میں واقع شاہی خاندان کی رہائش گاہ ونڈسر کاسل میں ہوا۔
شہزادہ فلپ کو رواں سال کے آغاز میں انفیکشن کے باعث چار ہفتے اسپتال میں گزارنے پڑے تھے جہاں سے انہیں 16 مارچ کو ہی ڈسچارج کیا گیا تھا۔ اسپتال سے نکلنے کے بعد وہ ونڈسر کاسل منتقل ہو گئے تھے۔
شہزادہ فلپ اور شہزادی ایلزبتھ کی شادی 20 نومبر 1947 کو ہوئی تھی۔ شہزادی ایلزبتھ نے اپنے والد کنگ جارج ششم کے انتقال کے بعد 1952 میں ملکہ کی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں جس کے بعد سے شہزادہ فلپ آخری وقت تک ان کے دست و بازو بنے رہے۔
ملکۂ برطانیہ کے شوہر ہونے کی حیثیت سے شہزادہ فلپ نے سات دہائیوں کے دوران اندرون و بیرونِ ملک 22 ہزار سے زائد تقریبات میں شاہی خاندان کی نمائندگی کی۔
اگست 2017 میں انہوں نے عوامی مصروفیات سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی لیکن اس کے بعد بھی وہ وقتاً فوقتاً سرکاری تقریبات میں شریک ہوتے رہتے تھے۔
ڈیوک آف ایڈنبرا نے آخری بار کسی عوامی تقریب میں شرکت گزشتہ سال جولائی میں کی تھی جب وہ ونڈسر کاسل میں منعقدہ ایک فوجی تقریب میں شریک ہوئے تھے۔
شاہی خاندان نے تاحال شہزادہ فلپ کی آخری رسومات کی ادائیگی کی تفصیلات جاری نہیں کی ہیں۔
ابتدائی زندگی
پرنس فلپ 10 جون 1921 کو یونانی جزیرے کورفو میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد پرنس اینڈریو یونان کے بادشاہ کے چھوٹے بھائی تھے اور ان کے دادا 1860 کی دہائی میں ڈنمارک سے یونان آئے تھے اور یہاں کے بادشاہ بنے تھے۔
فلپ کی والدہ شہزادی ایلس آف بیٹن برگ کا تعلق جرمن شاہی خاندان سے تھا اور وہ برطانیہ کی ملکہ وکٹوریا کی پڑنواسی تھیں۔
جب فلپ کی عمر 18 ماہ تھی تو ان کے والدین کو فرانس فرار ہونا پڑا۔ ان کے والد ایک فوجی کمانڈر تھے اور ترکوں کے ہاتھوں یونان کی شکست کے بعد ان پر مقدمہ چلایا جا رہا تھا۔ اس معاملے میں جب برطانیہ نے مداخلت کی تو یونان کے نئے حکمرانوں نے ملک چھوڑنے کی شرط پر پرنس اینڈریو کو سزائے موت نہ دینے پر آمادگی ظاہر کردی۔
برطانیہ آنے کے بعد فلپ کا خاندان غریب تو نہیں تھا لیکن گزر بسر کے لیے انہیں اپنے رشتے داروں سے مدد لینا پڑتی تھی۔
فلپ نے برطانیہ میں ابتدائی تعلیمی مراحل مکمل کرنے کے بعد 1939 میں برطانیہ کی رائل نیول کالج ڈارٹ موتھ میں شمولیت اختیار کی۔ 1940 میں ان کی پہلی تعیناتی ہوئی لیکن غیر ملکی شہزادہ ہونے کے باعث انہیں جنگی زون میں نہیں بھیجا گیا۔
بعدازاں یونان پر اٹلی کا حملہ ختم ہونے کے بعد انہیں بحیرۂ ہند اور بحیرۂ روم میں بھی تعینات کیا گیا۔
چھٹیوں کے دوران 10 جولائی 1947 کو ان کی منگنی برطانوی بادشاہ جارج ششم کی سب سے بڑی بیٹی اور ان کی جانشین ایلزبتھ سے ہوئی اور اسی برس 20 نومبر کو ان دونوں کی شادی ہوگئی۔
زندگی میں ڈرامائی موڑ
سن 1952 میں برطانوی بادشاہ جارج ششم کی موت کے بعد ان کی بیٹی ایلزبتھ ملکۂ برطانیہ بنیں اور شہزادہ فلپ نے بھی نئی برطانوی فرماں روا بننے والی اپنی بیوی سے وفاداری کا عہد کیا۔
شہزادی ایلزبتھ کے ملکہ بننے کے بعد فلپ کو ڈیوک آف ایڈنبرا کا خطاب دیا گیا۔ یہ ان کی زندگی میں ڈرامائی موڑ تھا کیوں کہ جہاں ان کی بیوی اتنی بڑی سلطنت کی حکمران تھیں، وہیں اس سلطنت میں ان کا کردار واضح نہیں تھا۔
ایک ایکٹو لائف گزارنے والے پرنس فلپ اس غیر واضح کردار کی وجہ سے شدید الجھن کا شکار رہے۔ نیٹ فلکس کی معروف ویب سیریز 'دی کراؤن' میں ان کی اس الجھن کی جھلک دکھائی گئی ہے۔
اپنی 90 ویں سال گرہ پر ایک انٹرویو میں پرنس فلپ نے کہا تھا کہ ایلزبتھ کے ملکہ بننے کے بعد کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ ملکہ کے شوہر کی حیثیت سے ان کا کردار کیا ہوگا۔
ان کے بقول ان کے اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا کہ ان سے کس قسم کے کردار کی امید کی جاتی ہے۔
شہزادہ فلپ برملا اس حقیقت کا بھی اعتراف کرتے تھے کہ ایلزبتھ کے ملکہ بننے کے بعد برطانوی بحریہ میں اپنے کریئر سے دست بردار ہونے کا فیصلہ ان کے لیے بہت مشکل تھا کیوں کہ انہیں نیوی کی زندگی سے پیار تھا۔
لیکن 26 برس کی عمر میں ملکہ سے شادی کے بعد انہوں نے مزے سے شاہی زندگی گزارنے کے بجائے برطانیہ میں صنعت، سائنس اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے فروغ کے لیے کام شروع کر دیا۔ تاہم ان پر یہ تنقید بھی ہوتی رہی کہ ایک جانب وہ ماحول کے تحفظ کی بات کرتے ہیں جب کہ دوسری جانب پرندوں اور جانوروں کے شکار میں بھی شریک ہوتے ہیں۔
شہزادی ڈیانا اور فلپ کا تعلق
عام تاثر یہ تھا کہ جب شہزادہ چارلس اور لیڈی ڈیانا کے درمیان دوریاں بڑھنے لگیں اور ڈیانا میڈیا میں اپنے خانگی مسائل زیرِ بحث لائیں تو شہزادہ فلپ کو اپنی بہو کا یہ اقدام ناگوار گزرا۔ لیکن ڈیانا کی موت کے بعد ان کی فلپ سے ہونے والی خط کتابت سامنے آنے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ اس دور میں بھی اپنی بہو سے ہمدردی رکھتے تھے۔
سن 1997 میں کار حادثے میں ڈیانا کی موت کے بعد ان کے ساتھ گاڑی میں ہلاک ہونے والے دودی الفائد کے والد محمد الفائد نے پرنس فلپ پر شہزادی ڈیانا کے قتل کی سازش کا الزام عائد کیا۔
تاہم اس معاملے کی تحقیقات کے دوران اس الزام سے متعلق شواہد نہیں ملے۔ لیکن فلپ نے محمد الفائد کے الزامات کا کبھی جواب نہیں دیا۔
گھر کا بادشاہ
فلپ زندگی بھر اپنی اہلیہ سے دو قدم پیچھے رہ کر چلے۔ وہ عوام میں انہیں ایک فرمانروا کی طرح عزت دیتے۔ ان کی آمدن اپنے بیٹے اور ولی عہد شہزادہ چارلس سے کم تھی۔ ملکہ کا شوہر ہونے کے باوجود انہیں کئی سرکاری دستاویزات تک رسائی حاصل نہیں ہوتی تھی۔ لیکن بکنگھم پیلس کی دیواروں کے پیچھے وہ اپنے خاندان کے سربراہ تھے۔
برطانوی شاہی خاندان کے مؤرخ رابرٹ لیسی کا کہنا ہے کہ فلپ نے ہمیشہ ملکہ ایلزبتھ کو ’جی حضوری‘ کرنے والوں میں گھرا دیکھا۔ لیکن وہ ان لوگوں میں شامل تھے جو ملکہ کے سامنے اپنی رائے کا صاف صاف اظہار کرتے تھے۔
شہزادہ فلپ کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ انہوں نے شاہی محل کی رسومات میں کئی اصلاحات کیں اور انہیں جدید دور سے ہم آہنگ کیا۔ ٹیلی ویژن کی آمد کے بعد انہوں نے شاہی اثر و رسوخ کو نمایاں کرنے کے لیے اس کے بھرپور استعمال پر زور دیا۔
خاندانی تنازعات کے علاوہ شہزادہ فلپ کئی مواقع پر غیر ضروری اور بعض مرتبہ نسل پرستانہ تصور کیے جانے والے تبصروں اور حرکات کی وجہ سے بھی خبروں کا حصہ بنتے رہے۔ ان کے ایسے تند و تیز تبصروں پر جہاں تنقید کی جاتی تھی وہیں کئی برطانوی ان کی اس عادت کو پسند بھی کرتے تھے۔