رسائی کے لنکس

شام: ترکی کے حمایت یافتہ باغیوں کا ادلب سے انخلا شروع


ادلب کے نزدیک ایک پہاڑی پر باغی جنگجو موجود ہیں (فائل فوٹو)
ادلب کے نزدیک ایک پہاڑی پر باغی جنگجو موجود ہیں (فائل فوٹو)

معاہدے کے تحت 15 سے 20 کلومیٹر چوڑے اس بفر زون میں نہ تو کسی جہادی تنظیم کے جنگجو موجود ہوں گے اور نہ ہی وہاں بھاری اسلحےکی تعیناتی کی اجازت ہوگی۔

روس اور ترکی کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت شام میں باغیوں کے آخری مضبوط گڑھ ادلب کے نواحی علاقوں سے باغی جنگجووں کا انخلا شروع ہوگیا ہے۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق جنگجووں کا یہ انخلا ترکی اور روس کے درمیان رواں ماہ طے پانے والے معاہدے کے تحت ہو رہا ہے جس میں دونوں ملکوں نے شامی حکومت کے زیرِ انتظام علاقوں اور باغیوں کے زیرِ قبضہ ادلب کے درمیان بفرزون قائم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

روس شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کا حامی ہے جب کہ ترکی شام کی خانہ جنگی میں حکومت مخالف باغیوں کی مدد کرتا آیا ہے۔

معاہدے کے تحت 15 سے 20 کلومیٹر چوڑے اس بفر زون میں نہ تو کسی جہادی تنظیم کے جنگجو موجود ہوں گے اور نہ ہی وہاں بھاری اسلحےکی تعیناتی کی اجازت ہوگی۔

شام کی صورتِ حال پر نظر رکھنے والی برطانوی تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کے مطابق معاہدے کے تحت 'فیلق الشام' نامی جہادی تنظیم کے جنگجووں کا ادلب سے متصل صوبہ حلب کے علاقوں سے انخلا شروع ہوگیا ہے۔

بفرزون کے قیام کا فیصلہ ترک صدر رجب طین ایردوان اور روسی صدر ولادی میر پوٹن نے رواں ماہ کیا تھا۔
بفرزون کے قیام کا فیصلہ ترک صدر رجب طین ایردوان اور روسی صدر ولادی میر پوٹن نے رواں ماہ کیا تھا۔

'آبزرویٹری' نے کہا ہے کہ تنظیم کے جنگجووں نے اتوار کو پسپا ہونا شروع کردیا ہے اور وہ اپنے ہمراہ بھاری ہتھیار بشمول ٹینک اور توپیں بھی لے جا رہے ہیں۔

'فیلق الشام' کے جنگجووں کی تعداد آٹھ سے 10 ہزار کے درمیان ہے اور یہ شامی باغیوں کے اتحاد 'نیشنل لبریشن فرنٹ' (این ایل ایف) کا حصہ ہے جسے ترکی کی حمایت حاصل ہے۔

'سیرین آبزرویٹری' کے مطابق 'این ایل ایف' ہتھیاروں کے اعتبار سے شمالی شام کا دوسرا مضبوط ترین اور عددی اعتبار سے تیسرا بڑا باغی اتحاد ہے۔

اتحاد نے گزشتہ ہفتے ہی ترکی اور روس کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ترکی کے ساتھ مکمل تعاون کرے گا۔

معاہدے کا اعلان 17 ستمبر کو ترک صدر رجب طیب ایردوان اور ان کے روسی ہم منصب ولادی میر پوٹن کے درمیان ملاقات کے بعد کیا گیا تھا۔

صوبہ ادلب کے ایک نواحی قصبے پر شامی فوج کی بمباری کے بعد دھواں اٹھ رہا ہے۔
صوبہ ادلب کے ایک نواحی قصبے پر شامی فوج کی بمباری کے بعد دھواں اٹھ رہا ہے۔

معاہدے کے مطابق مجوزہ بفرزون میں موجود تمام باغی دھڑوں کو 10 اکتوبر تک اپنے بھاری ہتھیار وہاں سے نکالنا ہوں گے جب کہ تمام جہادی تنظیموں سے منسلک جنگجووں کو 15 اکتوبر تک علاقے سے نکلنا ہوگا۔

دونوں ملکوں کے درمیان یہ معاہدہ ان اطلاعات کے بعد طے پایا تھا جن میں کہا گیا تھا کہ شامی حکومت ادلب پر بڑے حملے کی تیاریاں کر رہی ہے۔

مذکورہ معاہدہ کا بین الاقوامی برادری، امدادی تنظیموں اور اقوامِ متحدہ نے بھی خیر مقدم کیا تھا کیوں کہ اس کے طے پانے کے بعد یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ شامی حکومت ادلب پر حملہ نہیں کرے گی جہاں لاکھوں عام شہری پناہ گزین ہیں۔

عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ ادلب اور اس کے باغیوں کے زیری قبضہ اس کے نواحی علاقوں میں 30 لاکھ عام شہری موجود ہیں جن میں سے 15 لاکھ وہ پناہ گزین ہیں جو اپنے علاقوں میں جنگ کے باعث ہجرت کرکے ادلب پہنچے ہیں۔

تاحال 'فیلق الشام' نے اپنے جنگجووں کے انخلا کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا ہے اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا دوسری باغی تنظیمیں بھی مجوزہ بفرزون سے انخلا کی تیاری کر رہی ہیں یا نہیں۔

اب تک صرف ترکی کی حمایت یافتہ باغی تنظیموں نے مجوزہ بفرزون سے اپنے جنگجو نکالنے کا اعلان کیا ہے۔
اب تک صرف ترکی کی حمایت یافتہ باغی تنظیموں نے مجوزہ بفرزون سے اپنے جنگجو نکالنے کا اعلان کیا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ترکی کے لیے اس معاہدے پر عمل درآمد کرانا آسان نہیں ہوگا کیوں کہ علاقے میں بعض ایسی تنظیمیں بھی موجود ہیں جن پر ترکی اثر و رسوخ نہیں رکھتا۔

بفرزون جن علاقوں پر مشتمل ہوگا ان میں سے بیشتر سخت گیر جہادیوں یا پھر 'حیات التحریر الشام' نامی تنظیم کے جنگجووں کے قبضےمیں ہیں جو القاعدہ کی شامی شاخ کے سابق ارکان پر مشتمل ہے اور ادلب میں سب سے مضبوط باغی تنظیم مانی جاتی ہے۔

مجوزہ بفرزون کے باقی ماندہ علاقوں پر 'ایل ایل ایف' اور دیگر باغی گروہوں کا قبضہ ہے۔

'حیات التحریر الشام' نے تاحال ترکی اور روس کے درمیان طے پانے والے معاہدے سے متعلق اپنا موقف ظاہر نہیں کیا ہے جب کہ تنظیم کی جانب سے علاقے سے اپنے جنگجووں اور بھاری ہتھیاروں کے انخلا کی تیاریوں کی بھی کوئی اطلاع نہیں۔

علاقے میں موجود دو سخت گیر جہادی تنظیموں 'حراس الدین' اور 'جیش العزۃ' نے معاہدہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے شامی فوج سے لڑائی جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG