سعودی عرب اور روس دنیا میں تیل بر آمد کرنے والے دو کلیدی ممالک ہیں اور انھوں نے تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم یعنی اوپیک اور دوسرے ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عالمی معیشت کی بھلائی کے لیے پیداوار میں کمی کے معاہدے میں شامل ہوں۔
اس سے چند روز قبل تیل برآمد کرنے والے ممالک کے کلب کی ایک متنازعہ میٹنگ ہوئی تھی۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کے لیے عجلت میں ایک دورے کا اہتمام کیا گیا۔ ریاض آمد کے چند گھنٹے بعد کریملن نے دونوں لیڈروں کی بات چیت کے بارے میں مشترکہ بیان جاری کیا۔
پیٹرولیم برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک، روس اور دیگر اتحادیوں نے گزشتہ ہفتے اتفاق کیا تھا کہ رضاکارانہ بنیاد پر تقریباً 2.2 ملین بیرل یومیہ نئی کٹوتیاں کی جائیں گی۔ اس فیصلے کے تناظر میں قیادت کرتے ہوئے سعودی عرب اور روس نے اپنی رضاکارانہ کٹوتیوں کو 1.3 ملین بیرل یومیہ کر دیا۔
کریملن کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’توانائی کے شعبے میں دونوں ممالک نے اپنے درمیان قریبی تعاون کی تعریف کی اور تیل کی عالمی منڈیوں کے استحکام کو بڑھانے کے لیے اوپیک پلس ممالک کی کامیاب کوششوں کو سراہا۔‘‘
"انہوں نے اس تعاون کو جاری رکھنے کی اہمیت پر زور دیا اور تمام شریک ممالک کے اوپیک پلس معاہدے میں اس طور شامل ہونے کی ضرورت کی جانب توجہ دلائی جو پیداواری ممالک اور صارفین کے مفادات کو پورا کرے اور عالمی معیشت کی ترقی میں مدد دے۔‘‘
سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے نے کہا کہ ایم بی ایس کے نام سے معروف ولی عہد شہزادے اور پوٹن نے اپنی ملاقات میں اوپیک پلس ممبران کے گروپ کے معاہدے کے پابند ہونے کی ضرورت پر زور دیا۔
تیل کی منڈی کے ذرائع نے بتایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کریملن اورسعودی مملکت کی طرف سے کٹوتیوں میں ’’شامل ہونے‘‘ کے بارے میں واضح عوامی تبصرے کا ہدف مخصوص ممالک ہیں۔
پوٹن ماسکو میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے جمعرات ہی کو بات چیت کررہے ہیں۔
پوٹن کا ریاض اور ابوظہبی کا یہ فوری دورہ ایک معمے کی طرح ہے کیونکہ فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ایسا خاص مسئلہ کیا تھا جس کے لیے پوٹن نے یہ غیر معمولی بیرون ملک دورہ کیا اور چار روسی لڑاکا طیارے بھی ان کے ساتھ تھے۔ کریملن نے بتایا ہے کہ پوٹن اور ایم بی ایس نے غزہ، یوکرین اور یمن کے تنازعات، ایرانی جوہری پروگرام اور دفاعی تعاون کو گہرا کرنے پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
اوپیک پلس تنظیم کے اراکین دنیا میں 40 فیصد سے زیادہ تیل فراہم کرتے ہیں۔ اس تنظیم کو افریقی پیداوار کنندگان کے ساتھ پیداوار کے بارے میں اختلاف رائے پر اپنی میٹنگ میں تاخیر کرنا پڑی۔ تیل کے کچھ تاجروں کا کہنا ہے کہ انہیں گروپ کے اندر گہرے اختلافات کا شبہ ہے۔
تیل پیدا کرنے والے ممالک کی جانب سے کٹوتی کا فیصلہ کرنے کے باوجود تیل کی قیمتیں پانچ ماہ کی کم ترین سطح پر آگئیں۔ یہ ایک واضح علامت ہے کہ مارکیٹ کو اوپیک پلس سے مزید واضح نوعیت کی کارروائی کی توقع تھی۔
پوٹن اور ایم بی ایس روزانہ فراہم کیے جانے والے تیل کی مجموعی مقدار کے پانچویں حصے کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ملاقات میں انہیں مسکراتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے اور پوٹن نے سعودی دارالحکومت میں اپنی گاڑی سے نکلتے ہی ایک پرجوش مصافحہ بھی کیا۔
38سالہ ایم بی ایس اور 71 سالہ پوٹن دونوں تیل کی قیمتوں کو بلند سطح پر رکھنے کے خواہاں ہیں۔ دونوں کے لیے سوال یہ ہے کہ قیمتوں کو بلند رکھنے کے لیے ہر ایک کو کتنا بوجھ اٹھانا ہو گا اور اس بوجھ کی تصدیق کیسے کی جائے گی۔
پوٹن نے ایم بی ایس کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ شہزادے کے روس کے لیے طے شدہ دورے کے پروگرام کو آخری لمحات میں تبدیل کر دیا گیا تھا جس کے نتیجے میں وہ ریاض کا دورہ کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ پوٹن نے مسکراتے ہوئے ولی عہد شہزادے کو بتایا کہ ’’ہم تو ماسکو میں آپ کے منتظر تھے۔‘‘
پوٹن نے ولی عہد کو بتایا کہ ’’وہ سمجھتے ہیں کہ مخصوص واقعات کے نتیجے میں ان کے پروگرام میں تبدیلی ہوئی لیکن جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ ہمارے دوستانہ تعلقات میں پیش رفت کو کوئی چیز روک نہیں سکتی۔‘‘
پوٹن نے مزید کہا کہ ’’ آئندہ ملاقات ماسکو میں ہونی چاہئیے۔‘‘ ولی عہد نے ایک روسی مترجم کے ذریعے بتایا کہ وہ یقیناً ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اس رپورٹ کی تفصیل خبر رساں ادارے رائیٹرز سے لی گئی ہے۔
فورم