مشرق وسطیٰ کے ملک قطر میں پہلی بار ہونے والے قانون ساز مجلسِ شوریٰ کے انتخابات میں کوئی بھی خاتون امیدوار کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔
ملک کی 45 رکنی پارلیمان ’مجلسِ شوریٰ‘ میں 30 ارکان کا انتخاب الیکشن کے ذریعے کیا جانا تھا جس کے لیے ہفتے کو ووٹ ڈالے گئے۔ وزارتِ داخلہ کے اتوار کو جاری کیے گئے اعلان کے مطابق ملک بھر میں 63 فی صد سے زائد افراد نے حقِ رائے دہی استعمال کیا۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق حالیہ انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کی شرح 2019 میں ملک میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات سے 10 فی صد زائد ہے۔
مجلس شوریٰ یا پارلیمان کے ارکان کی مجموعی تعداد 45 رکھی گئی ہے جن میں سے 15 ارکان کا تقرر قطر کے امیر کریں گے۔
’اے ایف پی‘ کے مطابق یہ واضح نہیں ہے کہ قطر کے نو منتخب ارکان پارلیمان کا تقرر کب کیا جائے گا اور پارلیمان کا اجلاس کب ہو گا۔
قطر میں سیاسی جماعتوں پر پابندی ہے اس لیے تمام 284 امیدواروں نے آزادانہ طور پر انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ ان میں 28 خواتین امیدوار بھی شامل تھیں۔
ملک کے سرکاری ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق انتخابات کے دن ایک تہائی امیدوار الیکشن سے دست بردار ہو گئے تھے جس کے بعد 233 امیدواروں میں مقابلہ ہوا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ امیدوار کیسے دست بردار ہوئے۔
قطر کی مجلسِ شوریٰ ملک میں مختلف قوانین بنانے کا کام انجام دے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ بجٹ کی تیاری بھی اس کے امور میں شامل ہو گا۔ البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ ملک کے دفاع، داخلہ، سیکیورٹی، معیشت اور سرمایہ کاری کے حوالے سے مجلس شوریٰ کا کیا کردار ہو گا۔
خواتین کے انتخابات میں کامیاب نہ ہونے پر مختلف آرا بھی سامنے آ رہی ہیں۔ بچوں کے لیے کتب لکھنے والی منیرہ کا خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ووٹ کا حق ملنا بھی ایک نئے باب کا آغاز ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کو اس بات کی بھی بہت خوشی ہے کہ کئی خواتین امیدوار الیکشن میں میدان میں اتریں۔
ملک بھر میں انتخابات میں خواتین اور مردوں نے الگ الگ مقامات پر ووٹ ڈالے۔ دارالحکومت دوحہ سمیت اس کے نواح میں بھی ووٹ ڈالنے کی شرح زیادہ رہی۔
ووٹنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد ایک 65 سالہ امیدوار صبعان کا ’رائٹرز‘ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ آج کے دن کے اختتام پر قطر کے لوگوں کے پاس یہ اختیار ہو گا کہ وہ ملک کی فیصلہ سازی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔
’جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی‘ کے ’مڈل ایسٹ اسٹڈیز سینٹر‘ کے ڈائریکٹر الین فرامرز کا کہنا تھا کہ انتخابات میں ووٹنگ سے واضح ہو رہا ہے کہ قطر کا حکمران الثانی خاندان اقتدار میں شراکت کی علامتی حیثیت کو بھی سنجیدگی سے دیکھ رہا ہے۔ البتہ اس کے ساتھ ساتھ وہ دیگر قبائل کے شراکتِ اقتدار کے لیے ادارہ جاتی امور انجام دے رہا ہے۔
قطر میں انتخابات کی منظوری 2003 میں ہونے والے ایک ریفرنڈم میں دی گئی تھی۔ واضح رہے کہ یہ ملک آئندہ برس دنیائے کھیل کے مشہور ترین کھیل فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی بھی کرنے جا رہا ہے۔
قطر کے نائب وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ شیخ محمد بن عبد الرحمٰن الثانی نے گزشتہ ماہ واضح کیا تھا کہ قطر میں انتخابات ایک نیا تجربہ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مجلسِ شوریٰ سے یہ توقع نہیں کی جانی چاہیے کہ وہ پہلے ہی سال ایک پارلیمان کی مکمل ذمہ داری ادا کرنے لگے گی۔
اس رپورٹ میں مواد خبر رساں اداروں ’اے ایف پی‘ اور ’رائٹرز‘ سے لیا گیا ہے۔