جمعرات کو رحیم یار خان کے قریب تیز گام ایکسپریس میں آتش زدگی کے واقعے میں ہلاک ہونے والے مسافروں کی شناخت ریلوے انتظامیہ اور رحیم یار خان کے شیخ زید اسپتال کے لیے بڑا چیلنج بن گئی۔
حادثے میں ہلاک ہونے والے 62 افراد کی لاشوں کو جمعرات کی رات ہی رحیم یار خان کے شیخ زید اسپتال میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ پاکستان ریلویز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اعجاز احمد کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے 74 میں سے 18 افراد کی شناخت ہو گئی ہے جب کہ باقی افراد کی شناخت کا عمل جاری ہے۔
شیخ زید اسپتال پہنچنے والے لواحقین کے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے نمونے لیے جا رہے ہیں جن کی رپورٹس آنے کے بعد ہی لاشوں کو ورثا کے حوالے کیا جا سکے گا۔
زخمیوں کی حالت
حادثے میں 40 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں جو ملتان کے برن یونٹ اور نشتر اسپتال کے سرجیکل وارڈ، بہاولپور وکٹوریہ اسپتال اور رحیم یار خان کے شیخ زید اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ملتان کے برن یونٹ میں داخل 4 مریضوں کی حالت خطرے سے باہر بتائی جا رہی ہے۔ ان زخمیوں میں سے ایک کا جسم 14 فی صد سے زائد حصہ جھلس چکا ہے۔ بہاولپور کے وکٹوریہ اسپتال میں بھی 9 مریض لائے گئے جن میں سے سب کی حالت خطرے سے باہر بتائی جا رہی ہے۔ حکام کے مطابق یہ مریض گاڑی سے چھلانگ لگاتے ہوئے زخمی ہوئے۔ رحیم یارخان کے شیخ زید اسپتال میں 17 مریضوں میں سے چار کی حالت نازک ہے۔ شیخ زید اسپتال کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر ظفر حسین تنویر کا کہنا ہے کہ پانچ لاشیں شناخت کر لی گئی ہیں۔ ان کے بقول57 افراد کی شناخت کا مرحلہ باقی ہے اس کے لیے ڈی این اے ضروری ہے۔ ڈاکٹر ظفر حسین کا کہنا ہے کہ لواحقین سے ڈی این اے کے نمونے لیے جا رہے ہیں اس عمل میں ایک ہفتے سے زائد کا وقت لگ سکتا ہے۔
حادثے کی تحقیقات کہاں تک پہنچی ہیں؟
سانحہ تیز گام کی تحقیقات دو سطح پر جاری ہے۔ پاکستان ریلویز کے تحقیقاتی نظام کے مطابق ریلویز کے فیڈرل گورنمنٹ انسپکٹر جنرل نے اس کی محکمانہ انکوائری شروع کر دی ہے۔ جس کی ابتدائی رپورٹ ابھی آنا باقی ہے۔ دوسری طرف پولیس تھانہ ریلوے خانپور نے اس واقعہ کی ایف آئی آر اس ٹرین کے ایک گارڈ سعید احمد کی رپورٹ پر درج کی ہے جس میں ریلویز ایکٹ کی دفعہ 126، 436 اور 427 عائد کی گئی ہے۔
ایس پی ریلوے ملتان ڈویژن امجد منظور کا کہنا ہے کہ "تحقیقات میں اس پہلو کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے کہ کہیں جان بوجھ کر تو آگ نہیں لگائی گئی۔ پولیس کی تحقیقاتی ٹیم اس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے۔"
زخمی عینی شاہدین کیا کہتے ہیں؟
سانحہ لیاقت پور کے بعد وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد اور عینی شاہدین کے بیانات میں تضاد دیکھنے میں آیا ہے۔ ریلوے انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ریسکیو اہلکاروں نے جائے حادثہ سے ایک سلنڈر کے ٹکڑے برآمد کیے ہیں جو اس واقعے میں پھٹا تھا۔ شیخ زید اسپتال میں زیر علاج دو مریضوں کے مطابق کچھ لوگ گیس سلنڈر کے ذریعے چولہا جلا رہے تھے بعد میں انہوں نے اسے بند کیا تو وہ بند نہیں ہوا اور گیس لیک ہونے لگی۔ اس دوران پھر چولہا جیسے ہی جلایا گیا تو آگ ہر طرف پھیل گئی۔
زخمی مسافر عمران کا کہنا تھا کہ "کچھ مسافر چائے بنانے لگے تو آگ بھڑک اٹھی اور اس نے مسافروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جو کمبل اور بستر بچھائے آرام کر رہے تھے۔ ہر طرف دھواں پھیل گیا اور میں نے ٹرین سے چھلانگ لگا دی۔"
سلنڈرز اور چولہے ٹرین تک پہنچے کیسے؟
ریلوے ایکٹ کے تحت کوئی بھی ایسی چیز ٹرین پر مسافر نہیں لے جا سکتا جس میں آتش گیر مواد ہو اور اسٹیشن ماسٹر اور ریلوے پولیس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اس طرح کا کوئی سامان ٹرین میں نہ جانے دیں۔ تاہم اس واقعے کے بعد ریلوے انتظامیہ کی کوتاہی قرار دیا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ تبلیغی جماعت کے دو لاکھ سے زائد مسافر ریلوے کے ذریعے سفر کرتے ہیں اور ان کی طرف سے زیادہ تر یہ خلاف ورزی ہوتی ہے کہ ان کے قافلے چولہے اور سلنڈرز لے کر جاتے ہیں۔ ملتان ریلویز کے ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ میر محمد داؤد پوتہ کے مطابق "خانیوال سٹیشن پر ایک کارروائی میں ٹرین سے تبلیغی جماعت کے 23 سلنڈرز برآمد کیے ہیں اور انہیں اتار کر خالی کیا گیا اور پھر انہیں مسافر بوگی کے بجائے سامان والی بوگی میں رکھا گیا۔"