رسائی کے لنکس

سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ کیس کا فیصلہ پاکستانی خاتون کی درخواست پر موخر


لاپتا شخص، وکیل احمد (فائل)
لاپتا شخص، وکیل احمد (فائل)

بھارت اور پاکستان کے درمیان چلنے والی ریل سروس سمجھوتہ ایکسپریس میں 18 فروری 2007 کو اس وقت بم دھماکہ ہوا تھا جب وہ بھارتی ریاست ہریانہ کے تاریخی علاقے پانی پت سے گزر رہی تھی۔

بھارت کی ایک عدالت نے گزشتہ ہفتے ایک پاکستانی خاتون کی درخواست پر سمجھوتہ ایکسپریس کیس کا فیصلہ موخر کردیا تھا۔ یہ خاتون پاکستان کے صوبہ پنجاب کے علاقے حافظ آباد کی رہائشی ہیں جن کا کہنا ہے کہ اس کیس میں انہیں بطور گواہ شامل تو کیا گیا، لیکن ایک بار بھی گواہی کے لئے طلب نہ کیا گیا۔

یہ درخواست راحیلہ وکیل کی جانب سے اس روز سامنے آئی جب عدالت تقریباً 12 سال بعد اس کیس کا فیصلہ سنانے والی تھی۔ بھارتی عدالت نے ایڈوکیٹ مومن ملک کی وساطت سے دائر اس درخواست پر غور کے لئے فیصلہ موخر کرتے ہوئے سماعت 14 مارچ یعنی آج تک ملتوی کی تھی۔

راحیلہ خاتون کے پاکستان میں وکیل رانا عزیز نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تقریباً 12 سال سے یہ کیس بھارتی عدالت میں زیر سماعت رہا۔ لیکن کیس میں ان کی موکلہ کو بطور گواہ کبھی طلبی کے نوٹس جاری ہوئے اور نہ ہی بھارتی ہائی کمشنر یا دفتر خارجہ کی جانب سے انہیں کوئی پیغام ملا۔

راحیلہ وکیل عدالت میں کیا گواہی دینا چاہتی ہیں؟

درحقیقت راحیلہ کو سمجھوتا ایکسپریس دھماکے کے بعد سے لاپتا ہونے والے اپنے والد محمد وکیل کی تلاش ہے، جن کی عمر اس وقت 44 سال تھی اور وہ اسی بدقسمت ٹرین میں اپنے رشتہ داروں سے مل کر پاکستان واپس آرہے تھے۔

راحیلہ وکیل کو یقین ہے کہ ان کے والد اس حادثے میں بچ گئے تھے،، کیونکہ واقعے کے فوری بعد بھارتی میڈیا نے ان کے انٹرویوز نشر کئے اور کئی اخبارات میں بھی تصاویر کے ساتھ بطور عینی شاہد ان کے انٹرویوز شائع ہوئے۔ جن کی کاپیاں ان کے پاس بطور ثبوت موجود ہیں۔ لیکن وہ دن اور آج کا دن،ان کے والد محمد وکیل پاکستان پہنچے اور نہ ہی ان کا کوئی اتا پتا چل سکا۔
محمد وکیل کی بیٹی راحیلہ کا دعویٰ ہے کہ ان کے والد کو بھارتی خفیہ ایجنسی اپنے ساتھ لے گئی تھی اور اس بات کی تصدیق انہیں ٹرین میں بیٹھے اور لوگوں نے بھی کی تھی۔
ادھر بھارتی سرکار کی جانب سے محمد وکیل کے خاندان کو بتایا گیا کہ ان کے والد دہشتگردی کے اس واقعے میں جاں بحق ہوچکے ہیں، لیکن ہلاک ہونے والوں میں سے کسی ایک کی ڈی این اے رپورٹ بھی ان کے والد کی ہلاکت کی تصدیق نہ کرسکی۔
رانا عزیز ایڈوکیٹ کے مطابق راحیلہ اس کیس میں طلب ہونے پر عدالت میں یہ سوال اٹھانا چاہتی ہیں کہ آخر ان کے والد کہاں ہیں؟ صرف راحیلہ ہی کو نہیں بلکہ ان سمیت 13 پاکستانیوں میں سے کسی کو بھی آج تک گواہی کے لئے طلب ہی نہیں کیا گیا۔ جبکہ اس حادثے میں گواہوں کی کل تعداد 300 کے لگ بھگ تھی۔
پاکستانی حکومت کی جانب سے بھی بھارت کو محمد وکیل سے متعلق معلومات فراہم کرنے کی درخواستیں کی گئی، لیکن اب تک سب بے سود رہا ہے۔

سمجھوتا ایکسپریس دھماکہ کب ہوا تھا؟

بھارت اور پاکستان کے درمیان چلنے والی ریل سروس سمجھوتا ایکسپریس میں 18 فروری 2007 کو اس وقت بم دھماکہ ہوا تھا جب وہ بھارتی ریاست ہریانہ کے تاریخی علاقے پانی پت سے گزر رہی تھی۔ اس بم دھماکے میں کل 68 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں سے 43 پاکستانی باشندے تھے۔ ان میں سے اکثر کراچی، لاہور، حافظ آباد، مریدکے اور دیگر شہروں میں رہنے والے تھے۔

اس دھماکے کے خلاف بھارت میں 8 ملزمان کے خلاف کیس زیر سماعت ہے جن میں سے تین اب بھی مفرور ہیں۔ بھارت کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کے دعوے کے مطابق واقعے کا ماسٹر مائینڈ سنیل جوشی نامی ملزم تھا جو اسی سال مقابلے میں مارا گیا، جبکہ تین ملزمان جیل اور ایک ضمانت پر ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG