پاکستان میں ناقدین یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ ٹرین حادثات میں اضافے کی بڑی وجہ ناقص منصوبہ بندی اور نئی ٹرینوں کا اجراء ہے۔ صادق آباد میں ٹرین حادثے میں 23 افراد کی ہلاکت کے بعد اب یہ بحث زور پکڑ گئی ہے۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری اور خود وزیر اعظم عمران خان نے ریلوے کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے پر زور دیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی ٹرینیں چلانے کی بجائے ریلوے کے موجودہ انفراسٹرکچر میں جدت لانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ انگریز دور کے ریلوے ٹریک اب اس قابل نہیں ہیں کہ ان پر مزید بوجھ ڈالا جائے۔
گزشتہ روز لاہور سے کوئٹہ جانے والی اکبر بگٹی ایکسپریس کو رحیم یار خان کے قریب ولہار اسٹیشن کی حدود میں حادثہ پیش آیا تھا۔ اکبر بگٹی ایکسریس اسٹیشن کی حدود میں کھڑی مال گاڑی سے ٹکرا گئی تھی۔ جس کے نتیجے میں اب تک 23 مسافر جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے۔
حادثات میں مسلسل اضافہ
گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کے اجلاس کے دوران ریلوے حکام نے اعتراف کیا تھا کہ گزشتہ 12 مہینوں کے دوران ریل کے 74 حادثات ہوئے جن میں ٹرینوں کے پٹری سے اتر جانے کے واقعات بھی شامل تھے۔
رپورٹ کے مطابق 12 سنگین حادثات میں متعدد افراد ہلاک ہوئے، جبکہ بوگیوں کو آگ لگنے کے واقعات بھی رونما ہوتے رہے ہیں۔ یہ تمام واقعات جون 2018 سے لیکر جون 2019 کے درمیان ہوئے، اس رپورٹ میں رواں ماہ جولائی میں ہونے والے حادثات شامل نہیں ہیں۔
'نئی ٹرینیں حادثات کی وجہ نہیں'
ریلوے حکام نئی ٹرینوں کے اجراء کے باعث حادثات میں اضافے کے تاثر کی نفی کرتے ہیں۔ ترجمان ریلوے قرآۃ العین حیدر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہر حادثے کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مکمل ہوم ورک کرنے کے بعد ہی نئی ٹرین چلائی جاتی ہے لہذٰا اسے حادثات کی وجہ قرار دینا درست نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ ریلوے کا عملہ مستعدی اور جانفشانی سے اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔
ترجمان ریلوے کا کہنا تھا کہ “ہر حادثے کی انکوائری رپورٹ میں ذمہ داروں کا تعین کیا جاتا ہے اور ان کے خلاف ایکشن لیا جاتا ہے۔ ہمارا ریلوے کا ٹریک بہت پرانا ہے۔ سسٹم پرانا ہے جو اب ساتھ نہیں دے رہا۔ ہم اس کو ٹھیک تو کر رہے ہیں لیکن راتوں رات چیزیں ٹھیک نہیں ہوتیں”۔
صادق آباد حادثے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ
صادق آباد ٹرین حادثے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ تیار کرلی گئی ہے۔ جس کے مطابق ٹرین حادثہ سگنل سسٹم کی خرابی کے باعث پیش آیا۔ ریلوے حکام کی جانب سے تیار کی گئی رپورٹ کے مطابق ولہار کے اسٹیشن ماسٹر نے اکبر بگٹی ایکسپریس کو مین لائن کا گرین سگنل دیا جبکہ اسٹیشن کا سگنل عملی طور پر لوپ لائن پر ہی رہا۔
رپورٹ کے مطابق ڈرائیور اور اسسٹنٹ ڈرائیور بریک لگا کر پیچھے بھاگ گئے۔ ڈرائیور عبدالخالق اور اسسٹنٹ ڈرائیور فرمان الہیٰ شدید زخمی حالت میں زیر علاج ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مال گاڑی رحیم یار خان کے قریب ولہار اسٹیشن پر صبح سوا چار بجےکانٹا بدل کر لوپ لائن پر کھڑی کی گئی تھی۔ اکبر بگٹی ایکسپریس ساڑھے چار بجے پہنچی تو حادثے کا شکار ہوگئی۔
'ریلوے عملہ بارہ، بارہ گھنٹے ڈیوٹی دے رہا ہے'
پاکستان ریلوے کے ملازمین پر مشتمل ریلوے پریم یونین کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وزیر ریلوے شیخ رشید کی ساری توجہ نئی ریل گاڑیاں چلانے پر مرکوز ہے، موجودہ نظام کی مرمت اور اپ گریڈیشن پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔
ریلوے پریم یونین کے صدر حافظ سلمان بٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ شیخ رشید ذاتی تشہیر پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ ریلوے انجن 24 گھنٹے استعمال ہو رہے ہیں جبکہ ملازمین بھی مقررہ اوقات کار سے زیادہ کام کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ "ریلوے آپریشن سے براہ راست منسلک ڈرائیورز، اسٹیشن ماسٹرز اور کانٹا تبدیل کرنے والے افراد بارہ گھنٹے ڈیوٹی دے رہے ہیں، ایسے میں غلطی کا امکان رہتا ہے۔"
حافظ سلمان بٹ مزید کہتے ہیں کہ “ریلوے کے رولنگ اسٹاک، انجنوں کی مرمت اور عملے کی تربیت پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ بوگیوں اور انجنز میں نقائص ہیں سب سے بڑھ کر ریلوے لائنیں ساتھ نہیں دے رہیں۔"
وزیر ریلوے کے استعفے کے مطالبات
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بڑھتے ہوئے ریل حادثات کا ذمہ دار وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کو ٹھہراتے ہوئے ان کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔
مسلم لیگ ن کے دور حکومت کے دوران جب کوئی حادثہ ہوتا تھا تو اس وقت عمران خان بھی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے استعفے کا مطالبہ کرتے تھے۔
ٹرینوں کا شیڈول متاثر
صادق آباد ٹرین حادثے کے باعث متعدد ریل گاڑیوں کی آمدورفت متاثر ہوئی ہے۔ جس کے باعث مسافروں کو شدید گرمی اور حبس کے موسم میں پریشانی اور اذیت کا سامنا ہے۔
ملت ایکسپریس، علامہ اقبال ایکسپریس اور تیز گام دو سے تین گھنٹے، بہاؤالدین ذکریا ایکسپریس تین گھنٹے اور پاکستان ایکسپریس دو گھنٹے تاخیر سے کراچی پہنچیں۔ کراچی ریلوے اسٹیشن سے کراچی ایکسپریس اور قراقرم ایکسپریس ڈھائی گھنٹے کی تاخیر سے راولپنڈی کے لیے روانہ ہوئیں۔
گزشتہ ماہ بھی حیدرآباد ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک مسافر ریل گاڑی مال گاڑی سے ٹکرا گئی تھی۔ جس کے نتیجے میں ٹرین ڈرائیور سمیت تین افراد ہلاک ہوئے تھے۔