پاکستان کے معروف سیاحتی مقام مری میں برفانی طوفان میں پھنسنے والے 23 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد صورت حال تاحال معمول پر نہیں آئی تاہم حکومت نے ایک دن میں صرف 8 ہزار گاڑیوں کو مری میں داخلے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
ادھر وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کہتے ہیں کہ اگر اس روز وہ خود مری نہ جاتے تو ہلاکتوں کی تعداد 30 سے 40 ہو سکتی تھی۔
ان کے بقول پولیس کی کوئی بات نہیں سن رہا تھا اس لیے انہوں نے رینجرز کو طلب کیا تھا۔
دوسری جانب مری واقعے پر پنجاب حکومت کی جانب سے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی کی تحقیقات جاری ہیں۔
اب تک سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق کمیٹی نےمری میں کار پارکنگ نہ رکھنے والے ہوٹلز، شاپنگ مال اور اپارٹمنٹس کو بھی سیل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
کمیٹی نے مری ایکسپریس وے سمیت مری کی تمام ملحقہ شاہراہوں پر تجاوزات کو مسائل کی ایک وجہ قرار دیا ہے۔
سیاحوں کے لیے نئے ضوابط
سانحہ مری میں بڑی تعداد میں اموات کے بعد اب انتظامیہ نے مری جانے والے سیاحوں کے لیے نئے قوانین متعارف کرا دیے ہیں۔ جن کے مطابق اب مری میں صبح 5 بجے سے شام 5 بجے تک سیاحوں کی صرف آٹھ ہزار گاڑیاں ہی داخل ہو سکیں گی۔
گنجائش سے زیادہ گاڑیاں بھیجنے پر سخت ایکشن لیا جائے گا۔ تاہم براستہ مری، کشمیر جانے والی گاڑیوں کو پابندی سے استثنیٰ حاصل ہو گا۔ شام پانچ بجے سے صبح پانچ بجے ماسوائے ایمرجنسی سروسز اور فوڈ، فیول سپلائی گاڑیوں کے علاوہ کسی کو داخلے کی اجازت نہیں ہو گی۔
نئے قواعد و ضوابط کے مطابق ایکسپریس وے پر مری جانے والوں کی انٹری کے لیے الگ کاونٹر قائم کیا جائے گا۔ جہاں سیاحوں کے شناختی کارڈ اور موبائل فون نمبر درج کیے جائیں گے۔ سیاحوں کے داخلے کے لیے پیشگی انتظامات کیے جائیں گے، داخلی شاہراہوں کے اہل کار انتظامیہ سے مکمل رابطے میں رہیں گے۔
چیف ٹریفک آفس اور ایکسیئن مکینکل مشینری محکمۂ موسمیات کے ساتھ رابطے میں رہتے ہوئے قبل ازوقت وارننگ کے مطابق ٹریفک کو کنٹرول کریں گے۔
سی پی او راولپنڈی، سی ٹی او نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ساتھ مل کر گاڑیوں کی تعداد کو مقررہ حد میں رکھنے کے لیے انتظامات کریں گے۔
ڈپٹی کمشنر راولپنڈی محمد علی نے اس بارے میں باضابطہ حکم نامہ جاری کردیا ہے۔
تحقیقاتی کمیٹی کی سفارشات
دوسری جانب تحقیقاتی کمیٹی نے مری سانحہ سے متعلق مختلف افسران کے بیانات قلم بند کر لیے ہیں اور امکان ہے کہ پیر تک اس بارے میں رپورٹ وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو پیش کر دی جائے گی۔
اس کمیٹی نے اب تک کی تحقیقات میں مری میں غیر قانونی پارکنگ، پارکنگ کے بغیر ہوٹلز اور مری ایکسپریس وے کے اطراف بڑے پیمانے پر ہونے والی تعمیرات کو بھی سانحے کی ایک وجہ قرار دیا ہے۔
کمیٹی نے برف ہٹانے والی مشینری کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ جن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ایک ہی جگہ پر مشینری کی موجودگی سے نقصان پہنچا، اس مشینری کو چلانے والے اہلکار بھی غائب تھے جس کی وجہ سے صورتِ حال خراب ہوئی۔
راولپنڈی میں ایک تقریب کے دوران وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ مری میں صرف جانیں بچانے گیا۔ اگر وہ وہاں جا کر توجہ نہ دیتے تو 22 کے بجائے 40 لوگ مر جاتے، الله نے یہ کام ان سے لیا اور انہوں نے وہاں جا کر وزیرِ اعظم کی منظوری سے فوج اور رینجرز کو بلا کر ریسکیو میں استعمال کیا، 23 افراد کی اموات بڑا واقعہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہاں جو تحقیقات ہو رہی ہیں وہ اب صوبائی معاملہ ہے، وہ اس وقت صورتِ حال کے پیشِ نظر خود نکلے تھے اور وہاں جا کر انہوں نے سات سو سے زائد گاڑیوں کو خود چیک کیا کہ کوئی شخص اس کے اندر تو موجود نہیں ہے۔
خیال رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں مری میں ہونے والی شدید طوفانی برف باری کے بعد برف میں پھنسی گاڑیوں میں سوار 22 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
مری میں ان ہلاکتوں کے بعد سے اب تک سیاحوں کے جانے پر پابندی ہے اور صرف مقامی افراد کو شناختی کارڈ دکھا کر جانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔
مری میں آئندہ ہفتے سے ایک بار پھر برف باری کی پیشین گوئی کی جا رہی ہے اور اس بارے میں محکمۂ موسمیات نے 18 سے 20 جنوری تک کے لیے وارننگ جاری کر دی ہے اور اعلان کیا ہے کہ مری کے باہر سے آنے والے سیاحوں کے لیے ان تین دن تک مری بند رہے گا۔
مری کو لگاتار بند کرنے کے حوالے سے مقامی ہوٹل مالکان اور تاجر بھی اجتجاج کر رہے ہیں اور ہفتے کے روز ان تاجروں نے مسیاڑی اور چند دیگر مقامات پر آنے والی گاڑیوں کو بند کر دیا تھا تاہم بعد میں انتظامیہ کی مداخلت کے بعد سڑکیں کھلوا لی گئی تھیں۔
مری میں ہلاکتوں کی ایک بڑی وجہ ہوٹل مالکان اور گراں فروشی کو بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے 15 ہوٹلز کو اب تک سیل کیا جا چکا ہے۔ تاہم ہوٹل مالکان ایسویسی ایشن کے جنرل سیکرٹری راجہ ریاست عباسی اس الزام سے انکار کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا کچھ ثابت ہو جائے تو اس پر جرمانہ دینے کو بھی تیار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مری میں مقامی افراد کی صرف 10 فی صد ہوٹلز ہیں۔ اگر کسی شخص نے سیاحوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق اور ایسویسی ایشن کے قواعد کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی۔