صوبۂ سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں یہ آج ہمارا تیسرا روز تھا، مختلف گاؤں، دیہات کو اب بھی سیلاب کے پانی سے ڈوبا دیکھ کر میں سوچ رہی تھی کہ آنے والے وقت میں یہ پانی صرف اس صوبے کو ہی نہیں بلکہ ملک بھر کو اناج کے بحران سے دوچار کردے گا۔
ابھی تو صرف غریب ہاری، کسان اپنی تباہ حال زمینوں کو دیکھ کر پریشان ہیں جن کی فکر بالکل جائز ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں اگر اس پانی کو نکال کر زمین کو قابلِ کاشت نہ بنایا گیا تو اگلی فصل کی بوائی مشکل ہوجائے گی۔
ان ہی سوچوں کے ساتھ اب ہمارا سفر گوٹھ شیر محمد بروہی سے کوٹھی کلہوڑو کی طرف تھا جہاں گوٹھ کے لوگ ہمارے منتظر تھے۔ یہاں پہنچنے سے قبل بھی سفر کے دوران مناظر کچھ مختلف نہ تھے۔ پانی میں ڈوبے مکانات کھنڈر بن چکے تھے اور کئی ایسے گاؤں دکھائی دے رہے تھے جہاں کسی آدم زاد کا وجود تک نہ تھا۔
ان مکانات کی چھتیں اور دیواریں گر چکی تھیں اور یہاں داخل ہونے کے لیے کئی کئی فٹ پانی سے گزر کر جانا ہی ممکن تھا۔ لیکن ان گاؤں سے کچھ فاصلے پر ایسے بھی گھر نظر آئے جہاں سیلاب کا پانی ہوتے ہوئے بھی زندگی دکھائی دے رہی تھی۔
ایک اسکول جس کی حالت سیلاب سے قبل بھی خراب ہی تھی وہاں بچے یونیفارم پہنے پڑھتے دکھائی دیے۔ مجھے گاڑی سے گزرتے ہوئے بھی یہ منظر یاد رہ گیا کہ اس اسکول کی بیرونی دیوار گری ہوئی تھی اور بچے صحن میں بیٹھے نظر آرہے تھے۔
گوکہ زندگی معمول پر آ رہی ہے لیکن اتنے نامساعد حالات کے ساتھ آنے والا وقت ان لوگوں کے لیے مزید کیا کیا پریشانیاں لاسکتا ہے، اس کا مجھے بھی اندازہ تھا اور وہاں بسنے والوں کو بھی۔
اب ہم گوٹھ کوٹھی کلہوڑو میں داخل ہو چکے تھے۔گاڑی سے اترتے وقت میرے کانوں میں جو پہلی آواز پڑی وہ اسکول میں پڑھائے جانے والے سبق کی تھی جسے بچے با آواز بلند ایک ساتھ دہرا رہے تھے۔ مجھے اپنے اسکول کا وقت یاد آگیا۔ تقریباً 50 قدم کے فاصلے پر یہ اسکول تھا جس میں داخل ہوتے ہی مجھے حیرت کا جھٹکا لگا۔
شاید آج کا دن ہی حیران کردینے والا تھا۔ میں پہلے جس اسکول سے ہوتی ہوئی آرہی تھی وہاں عمارت تو بہت اچھی تھی لیکن بچوں کے پاس بیٹھنے کے لیے بینچیں یا کرسیاں نہیں تھیں اور وہاں 150 بچوں کو پڑھانے کے لیے ایک استاد موجود تھا۔
لیکن یہاں 360 بچے تھے، تمام اساتذہ حاضر تھے لیکن یہ پرائمری اسکول کی عمارت دو کمروں پر مشتمل تھی جس میں بچوں کی اکثریت باہر کچے صحن میں زمین پر بیٹھی ہوئی کلاس لے رہی تھی۔
اس اسکول کے صرف ایک استاد محمد نواز شاہانی کے پاس بیٹھنے کے لیے کرسی اور ایک ٹوٹی پھوٹی میز موجود تھی۔ یہ استاد بر آمدے میں بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے اطراف میں ہر جانب لڑکے تھے۔
ایک اندھیرے کلاس روم میں لڑکیاں اور دوسرے میں لڑکے موجود تھے۔ کلاس کے اندر اتنے گھپ اندھیرے کی وجہ یہ معلوم ہوئی کہ اس اسکول میں کئی ماہ سے بجلی ہی نہیں ہے۔ اسی لیے ٹیچر کو جب کسی بچے کو ریڈنگ کروانی ہو تو وہ اپنی باری سے قبل ہی بر آمدے میں آکر بیٹھ جاتا ہے۔
دو کمروں میں بنا یہ پرائمری اسکول 1986 میں قائم ہوا۔ شاید اسے تعمیر کرتے وقت بھی یہ نہیں سوچا گیا تھا کہ پرائمری اسکول میں پہلی سے پانچویں جماعت ہوتی ہیں جن کے لیے دو کمرے ناکافی ہوسکتے ہیں۔
یہاں بھی موجود اساتذہ کی مینجمنٹ اتنے برسوں سے کام چلانے پر اسی لیے مجبور نظر آئی کہ بچے پڑھنا چاہتے ہیں اور وہ پڑھانا۔ اس لیے ایڈجسمنٹ کے ساتھ یہ تعلیمی سلسلہ جاری ہے۔ ان دونوں کلاس رومز کا جائزہ لیتے وقت مجھے خبردار کیا گیا تھا کہ میں احتیاط برتو ں کیوں کہ یہ پہلے ہی مخدوش حالت میں ہے لیکن اب سیلاب کے بعد مزید خطرناک ہوچکی ہے۔
کلاس کا فرش دھنس چکا تھا اور دیوارو ں پر پانی کے نشانات اب بھی موجود تھے۔ چھتوں پر سے پلاستر اتر چکا تھا اور سریے دکھائی دے رہے تھے۔ یہ تباہی چیخ چیخ کر بتانے کو تیار تھی کہ یہ چھت کبھی بھی اپنا بوجھ کم کرسکتی ہے۔ مجھے وہاں بیٹھے بچوں کو دیکھ کر خوف کے مارے جسم میں سرد لہر دوڑنے کا احساس ہوا۔
اس عمارت کا حال ابتر ہے آپ ان بچوں اور بچیوں کو بھی باہر ہی بٹھادیں کہیں کوئی حادثہ نہ ہوجائے، مجھ سے رہا نہ گیا تو میں نے ایک استاد سے کہہ ہی ڈالا۔
یہ بچیاں چوتھی، پانچویں جماعت کی ہیں اور بڑی ہیں اگر ہم انہیں ان کے ہم جماعتوں کے ساتھ یا دوسرے لڑکوں کے ساتھ بٹھادیں گے تو ان کے والدین اور گوٹھ والے ناراض ہوں گے اس لیے الگ بٹھانا ہماری مجبوری ہے۔ یہ بتاتے ہوئے استاد احمد بخش کا لہجہ خاصا مجبور لگا۔
یہ اسکول اتنا بڑا تو نہیں تھا جسے دیکھتے دیکھتے گھنٹے لگ جاتے لیکن اس چھوٹے سے اسکول میں کہانیاں اتنی بڑی تھیں کہ سننے میں آدھا دن ضرور گزر سکتا تھا۔ چوں کہ استاد محمد نواز اس اسکول میں گزشتہ 12 برس سے پڑھا رہے تھے تو میں نے ان سے بات کرنے کا ارادہ کیا اور جاننے کی کوشش کی کہ گزشتہ 12 برسوں میں اس درس گاہ میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
استاد احمد بخش کے بقول "ہم نے ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کو کئی خطوط لکھے، در خواستیں بھیجیں کہ اس اسکول میں طلبہ کی تعداد گنجائش سے کہیں زیادہ ہے اس لیے فرنیچر بھیجا جائے یا عمارت کو وسیع کیا جائے۔ جس کے کئی بار تو جواب ہی نہیں آئے پھر کچھ برس قبل دو تین افسران یہاں وزٹ پر آئے اور یقین دہانی کرا کر چلے گئے کہ کچھ نہ کچھ کیا جائے گا۔
پانچ سال پہلے یہی گاؤں سے تھوڑا آگے ایک اسکول کی عمارت بننا شروع ہوئی تو ہمیں بتایا گیا کہ یہاں آپ کے بچے جلد شفٹ کردیے جائیں گے لیکن وہ زیر تعمیر عمارت جو اتنی بڑی نہیں تھی اس پر کام رک گیا۔ ''ہم تو روز اس دعا کے ساتھ دن کا آغاز کرتے ہیں کہ سب خیر رہے کوئی حادثہ نہ ہوجائے اللہ بھی ہماری دعا سن رہا ہے۔''
سیلاب کے بعد تعلیمی سلسلہ معمول پر آنے میں ابھی تک کیا رکاوٹیں ہیں؟ اس کے جواب میں احمد بخش کا کہنا تھا کہ اس اسکول میں ویسے تو 450 بچوں کی ا انرولمنٹ ہے لیکن جب سیلاب آیا تو اس گاؤں میں بھی تین سے چار فٹ پانی کھڑا تھا۔ لوگ اپنی جان بچانے کے لیے یہاں سے محفوظ مقامات پر منتقل ہوگئے۔ جب پانی اترا تو گھروں کو لوٹ آئے لیکن اب بھی کئی ایسے خاندان ہیں جو کسی اور علاقے میں ہیں یا اپنے کسی عزیز رشتے داروں کے پاس۔ ان کے بچے ابھی تک اسکول نہیں آسکے۔
ان کے بقول موسم گرما کی تعطیلات ختم ہونے کے باوجود بھی اسکول اس لیے وقت پر نہ کھل سکے کہ یہاں پانی کھڑا تھا۔ ابھی کچھ ہفتوں پہلے ہی اسکول کھولا گیا ہے۔
اس اسکول میں میرے لیے یہ بات بھی حیران کن تھی کہ یہاں ہر بچے کے ہاتھ میں تختی اور سلیٹ تھی جسے یہاں مقامی زبان میں 'پٹی' کہا جارہا تھا۔ پہلے جن اسکولوں میں جانا ہوا وہاں بھی مجھے بچوں کے ہاتھ میں یہ تختیاں نظر آئیں اب یہاں بھی ایسا ہی تھا۔
میں نے اس اسکول میں کسی بچے کے ہاتھ میں کاپی نہیں دیکھی جس پر وہ کچھ لکھ رہا ہو۔ حروف تہجی ہو یا انگریزی، سندھی زبان کے رسم الخط ہوں یا حساب وہ سب تختی پر ہی لکھا اور مٹایا جاتا تھا۔ اس اسکول میں پانی تو تھا نہیں بلکہ ہر بچے کے پاس تختی صاف کرنے کے لیے کپڑا بھی موجود نہیں تھا۔
چھوٹے بچے تو یہ کام اپنی تھوک سے ہی سر انجام دے رہے تھے جب کہ لڑکیاں اپنے دوپٹے سے تو باقی لڑکے قمیض کی آستین سے اسے صاف کرکے پھر سے لکھنے لگتے تھے۔ لیکن اس دور میں جہاں تعلیم دینے کے معیار اب بہت بدل چکے ہیں یہ بچے ابھی تک تختی کا استعمال کیوں کر رہے ہیں؟
جواب میں احمد بخش کا کہنا تھا کہ ''یہ بچے بہت غریب گھرانوں کے ہیں ان کے پاس دو وقت کا کھانا بھی میسر نہیں ان کے لیے روز کاپی پینسل کا خرچہ نکالنا انتہائی مشکل ہے اس لیے یہاں آپ کو یہ تختیاں نظر آرہی ہیں۔ یہاں تو کیا آپ کو پورے سندھ میں ہی ایسا نظر آئے گا کچھ اسکول ہوں گے جہاں ایسا نہ ہو لیکن پسماندہ علاقوں میں یہ عام بات ہے۔''
ان کے بقول سرکار مفت تعلیم اور کورس دے رہی ہے لیکن جو سہولیات ہیں وہ آپ کے سامنے ہیں ایسے میں والدین پر یہ بوجھ کیسے ڈالا جائے کہ بچے کو کاپیوں کی ضرورت ہے وہ تو پھر بچے کو نہیں بھیجیں گے۔ اس لیے لکھنے کا سارا کام اسی طرح کروایا جاتا ہے۔''
محمد نواز شاہانی کا خواب ہے کہ ان کے پڑھائے بچو ں میں سے کوئی ڈاکٹر، انجینئر، استاد، اعلیٰ افسر بنے جو اس علاقے کا فخر بن سکے۔ اپنی اور علاقے کے لوگوں کی قسمت بدل سکے۔ انہیں یہ یقین ہے کہ سہولیات کی عدم دستیابی میں بھی یہ بچے بہت کچھ کرنے کی لگن رکھتے ہیں۔ اِن بچوں میں اُن بچوں کے مقابلے میں جن کے پاس سب میسر ہے کہیں زیادہ آگے بڑھنے کا حوصلہ اور ہمت ہے۔ لیکن ان 12برسوں میں ان کے ہاتھ سے پڑھے بچوں میں سے ابھی تک کوئی یہ خواب پورا نہیں کر پایا لیکن ان کی امید زندہ ہے۔
اس اسکول کے بچوں سے ملتے ہوئے، بات چیت کرتے ہوئے مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ یہ بچے اور اساتذہ ان سب سہولیات اور آسانیوں کے حق دار ہیں جو اور لوگوں کو میسر ہیں۔ ان بچوں کو دیکھ کر میری نظروں کے سامنےشہر میں پڑھنے والے وہ بچے گھومنے لگے جو پرائمری کی سطح میں بھی اپنے پراجیکٹس روبوٹس پر بنا رہے ہیں۔
کچھ بچے تو ناسا کے خلابازوں سے سوال کر رہے ہیں جن کے انہیں جوابات بھی مل گئے ہیں۔ سائنس، فزکس، لٹریچر، جنرل نالج میں شہر میں پڑھنے والے بچوں کی معلومات ان کے والدین کے لیے بھی چیلنج ثابت ہورہی ہے تو دوسری جانب وہ ضلع جو اس وقت پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا حلقہ ہے۔ ان کے خاندان کاآبائی علاقہ کہلاتا ہے وہاں بچے اب بھی تختیوں پر لکھ کر سہانے مستقبل کے اور قسمت بدلنے کے خواب بن رہے ہیں۔
میری فکر صرف یہ تھی کہ ان خوابوں کو پورا کرنے کا یہ سفر جتنا مشکل ہے اگر منزل پر ان بچوں کو نہ پہنچا سکا تو کیا ہوگا؟ شاید کسی کے کچھ بننے کا خواب ٹوٹ جائے گا لیکن سیاست اور ایڈ جسٹمنٹ کا کام جو کئی دہائیوں سے جاری ہے وہ یوں ہی چلتا رہے گا۔