گذشتہ پندرہ روز پاکستان پر بہت گراں گزرے ہیں، جس دوران ملک کے ایک کونے سے دوسرے تک، متعدد شہروں میں تواتر کے ساتھ کئی دہشت گرد حملے ہوئے، جن میں کافی جانی نقصان ہو چکا ہے، جب کہ متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں بیشتر کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔
سترہ فروری کو لاہور میں ہونے والے خودکش دھماکے کی وجہ سے ابھی فضا سوگوار تھی کہ 16 فروری کو دہشت گردوں نے سہون شریف میں قلندر شہبار کے مزار کو نشانہ بنایا، جس میں 70 سے زائد زائرین ہلاک ہوئے، جب کہ مزید 200 زخمی ہیں، جن میں سے کئی کی حالت نازک ہے۔
صوفی مزارات پر حملے اب معمول بنتا جا رہا ہے۔ پچھلے سال، نومبر کی 12 تاریخ کو بلوچستان کے شہر لسبیلہ میں معروف صوفی درگاہ، شام نورانی پر خودکش حملہ ہوا تھا، جس میں 52 زائرین ہلاک جب کہ 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
پاکستانی حکام کے مطابق، قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن کی وجہ سے عسکریت پسندوں کے نیٹ ورک کو توڑ دیا گیا ہے، جس سے اُن علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے۔ لیکن، بقول پاکستانی حکام، کالعدم تحریک طالبان کے ایک دھڑے، جماعت الاحرار کی دہشت گرد کارروائیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ جب کہ بتایا جاتا ہے صوبہٴ خوراسان کی داعش بھی سر اٹھا رہی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ خودکش حملوں کا یہ تازہ سلسلہ سات فروری کو بنوں سے شروع ہوا، جب ایک خودکش بمبار نے پولیس اسٹیشن کو نشانہ بنایا۔ پولیس ذرائع کے مطابق، ضلع بنوں میں منڈان پولیس تھانے کی بیرونی دیوار سے بارود بھری گاڑی ٹکرا دی گئی۔ بنوں میں ہونے والے حملے میں تھانے کی عمارت کو جزوی نقصان پہنچا۔ واقعے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔ صوبہٴ خیبر پختون خواہ کی پولیس اور سکیورٹی فورسز نے علاقے میں سرچ آپریشن شروع کیا، جو ابھی جاری ہے۔
تیرہ فروری کو لاہور کے دھماکے میں دو پولیس اہل کار سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے۔ پنجاب اسمبلی کے قریب ہونے والے اس دھماکے میں ہلاک ہونے والوں میں لاہور ٹریفک پولیس کے ڈی آئی جی، کیپٹن (ریٹائرڈ) احمد مبین اور سینئر سپرانٹنڈنٹ پولیس زاہد گوندل شامل تھے۔
پندرہ فروری کو پشاور میں موٹر سائیکل پر سوار خودکش حملہ آور نے ایک سرکاری گاڑی کو نشانہ بنایا۔ واقع کا ہدف سول جج تھے، جس میں ایک فرد ہلاک اور تین خواتین زخمی ہوئیں۔اس واقع کی ذمہ داری کالعدم شدت پسند تحریک، جماعت الاحرار نے قبول کی ہے۔
اُسی روز قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں ہونے والے ایک خودکش بم دھماکے میں لیویز فورس کے تین اہل کار سمیت پانچ افراد ہلاک ہوئے۔ قبائلی انتظامیہ کے مطابق، دو خودکش حملہ آوروں نے مرکزی قصبے غلنئی میں پولیٹیکل ایجنٹ کے دفتر پر حملے کی کوشش کی تھی۔ ادھر پاکستانی فوج کے ایک بیان کے مطابق، بروقت کارروائی کرکے مہمند ایجنسی میں بدھ کو دہشت گردی کا ایک بڑا منصوبہ ناکام بنایا گیا۔
ادھر، 15 فروری کو مظفرآباد میں مبینہ طور پر موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم حملہ آوروں نے شیعہ تنظیم، وحدت المسلمین کے پاکستان زیر انتظام کشمیر کے سکریٹری جنرل، علامہ تصور الجوادی اور اُن کی اہلیہ پر گولی چلائی جس واقع میں دونوں زخمی ہوئے۔
سولہ فوری کو قلندر شہباز کے مزار پر حملے کے علاوہ، پاکستان کے مزید دو شہروں میں خودکش حملے ہوئے، جن میں بلوچستان کے ضلع آواران کی تحصیل جھاؤ میں بم دھماکہ شامل ہے، جس میں تین فوجی ہلاک ہوئے۔ جمعرات ہی کے روز، ڈیرہ غازی خان میں دھماکہ ہوا۔
صوبہٴ پنجاب کے شہر، خانیوال سے موصولہ خبر کے مطابق، سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں چھ دہشت گرد ہلاک ہوئے۔
ملک کی سیاسی و فوجی قیادت کی جانب سے جاری کردہ بیانات میں ملک بھر میں ’’دہشت گردوں اور اُن کے معاونین کے خلاف بھرپور کارروائیاں کرنے کے عزم کا اظہار‘‘ کیا گیا ہے، جب کہ پاکستان فوج کے سربراہ، جنرل قمر جاوید باجوا کی طرف سے یہ بیان آچکا ہے کہ ’’سیکورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف حاصل کی جانے والی کامیابیوں کو ضائع نہیں ہونے دے گی‘‘۔
’وائس آف امریکہ‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں، خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلیٰ، پرویز خٹک نے کہا ہے کہ ’’پاک افغان سرحد پر بارڈر منیجمنٹ کا نطام نافذ کیا گیا ہے، جس سے آمد و رفت کی چیکنگ کا سلسلہ جاری ہے‘‘۔
اطلاعات کے مطابق، پاکستان نے افغانستان سے جماعت الاحرار کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کی جانب سے بدھ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’افغانستان میں جماعت الاحرار کی پناہ گاہوں سے پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں پر پاکستان کو شدید تحفظات ہیں‘‘۔
ادھر پاکستان میں تعینات افغان سفیر، حضرت عمر زخیلوال نے لاہور اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں دہشت گرد حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان نے افغان سرحد کے قریب اپنے قبائلی علاقوں میں جب دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی تو اُس میں تمام عسکریت پسند نہیں مارے گئے، بلکہ اُن میں سے کچھ افغانستان کے اُن علاقوں میں منتقل ہوگئے جو کہ کابل حکومت کے زیر کنٹرول نہیں ہیں۔