جسیکا برمن، مدیحہ انور —
ایک نئی تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ اسکول کے ایسے بچے جو اپنے ساتھی طالبعلموں کے ساتھ ہمدردی اور اچھے روئیے کا مظاہرہ کرتے ہیں، ان بچوں کی نسبت زیادہ خوش رہتے ہیں جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ رحمدلی کا سلوک روا نہیں رکھتے۔ تحقیق دانوں کا ماننا ہے کہ طالبعلموں کے درمیان رحمدلی کے مظاہرے سے نہ صرف ساتھی طالبعلم آپ کی حیثیت تسلیم کرتے ہیں بلکہ اس سے اسکولوں میں طالبعلموں کے درمیان ایک دوسرے کو چھیڑنے یا مذاق کا نشانہ بنانے کے واقعات میں بھی کمی لانا ممکن ہے۔
یہ تحقیق کینیڈا اور امریکہ سے تعلق رکھنے والے نفسیات دانوں کی ٹیم کی طرف سے سامنے آئی جس نے تاریخ میں پہلی مرتبہ بچوں میں ان روئیوں کا مشاہدہ کیا جو ان میں خوشی کے جذبات ابھارسکتے ہیں۔ اس تحقیقی ٹیم کی سربراہی یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا سے تعلق رکھنے والی کمبرلی شونرٹ ریچل کر رہی تھیں۔ جن کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے اس طرز کی تحقیق بچوں کی بجائے ان بڑوں میں کی گئی جو ڈپریشن کا شکار تھے۔
کینیڈا کی ریاست برٹش کولمبیا کے شہر وینکوور کے ایک اسکول کے نو سے گیارہ برس کی عمروں کے چار سو بچوں کو کہا گیا کہ وہ اپنے ان ساتھی طالبعلموں کے نام بتائیں جن کے ساتھ انہیں اسکول میں کام کرنا اور مختلف سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینا اچھا لگتا ہے۔ انہیں یہ بھی کہا گیا کہ وہ بتائیں کہ وہ ان کے ساتھ کتنا خوش رہتے ہیں؟ پھر ان بچوں کو دو گروپوں میں تقسیم کر دیا گیا۔
ایک گروپ کے بچوں سے کہا گیا کہ وہ ہفتے میں ایک مرتبہ رحمدلی کا کوئی مظاہرہ کرنے کی کوشش کریں۔ جیسا کہ ساتھی طالبعلموں کے ساتھ اپنا دوپہر کا کھانا مل بانٹ کر کھانا یا پھر اپنے ساتھی طالبعلم کی پریشان دکھائی دینے والی والدہ کو پیار سے گلے لگانا۔
دوسرے گروپ میں شامل بچوں سے کہا گیا کہ وہ ان پرفضاء مقامات مثلا کوئی پارک یا پھر نانا، داداکے گھر جانے جیسے واقعات کی ایک فہرست تیار کریں جہاں وہ ہر ہفتے جاتے ہوں۔
چار ہفتوں بعد تمام طالبعلموں سے ان چیزوں کے بارے میں پوچھا گیا جو انہیں خوش کرتی ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ وہ یہ بتائیں کہ انہیں اپنے کس ساتھی طالبعلم کے ساتھ کام کرکے اچھا لگتا ہے۔
دوسرے گروپ کے بچوں کو ان جگہوں کا تذکرہ کرکے بھی خوشی ہوئی جہاں جا کر انہیں اچھا لگا تھا۔ کمبرلی شونرٹ ریچل کہتی ہیں کہ ’’لیکن ایک فرق یہ تھا کہ جن بچوں نے آپس میں رحمدلی کا مظاہرہ کیا تھا، انہیں اپنے وہ ساتھی طالبعلم زیادہ اچھے لگنے لگے جن کے ساتھ انہیں کام کرکے اچھا لگا تھا۔ پہلے گروپ میں بچے ایک دوسرے کو دوسرے گروپ کی نسبت زیادہ پسند کرتے تھے‘‘۔
کمبرلی شونرٹ کہتی ہیں کہ جو طالبعلم رحمدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ اپنے ساتھی طالبعلموں کو اپنے سے کمزور اور مختلف نہیں سمجھتے اور اسکول میں انکا مذاق اڑانے یا تضحیک کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس عمل کو امریکہ میں bullying کہا جاتا ہے۔ ’’یقینا اس حوالے سے ہمیں مزید سائنسی تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ اس سے بچوں میں ایک دوسرے کا مذاق اڑانے کا سلسلہ ختم کرنا ممکن ہے۔ لیکن میں ایک بات یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ اگر آپ کو اپنا ساتھی طالبعلم پسند ہے تو اس بات کا امکان کم ہے کہ آپ اسے مذاق کا نشانہ بنائیں گے۔‘‘
کمبرلی شونرٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان باتوں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خوش بچے زیادہ بہتر طالبعلم ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کے ذہن نئی معلومات حاصل کرنے کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ مزے کی بات ہے کہ ایک تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ اگر آپ کوئی پروفیسر ہیں یا پھر ٹیچر، اور آپ ایسے وقت میں پرچے دیکھ رہے ہوں جس وقت آپ خوش ہوں، تو اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ آپ زیادہ نمبر دیں گے‘‘۔
ایک نئی تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ اسکول کے ایسے بچے جو اپنے ساتھی طالبعلموں کے ساتھ ہمدردی اور اچھے روئیے کا مظاہرہ کرتے ہیں، ان بچوں کی نسبت زیادہ خوش رہتے ہیں جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ رحمدلی کا سلوک روا نہیں رکھتے۔ تحقیق دانوں کا ماننا ہے کہ طالبعلموں کے درمیان رحمدلی کے مظاہرے سے نہ صرف ساتھی طالبعلم آپ کی حیثیت تسلیم کرتے ہیں بلکہ اس سے اسکولوں میں طالبعلموں کے درمیان ایک دوسرے کو چھیڑنے یا مذاق کا نشانہ بنانے کے واقعات میں بھی کمی لانا ممکن ہے۔
یہ تحقیق کینیڈا اور امریکہ سے تعلق رکھنے والے نفسیات دانوں کی ٹیم کی طرف سے سامنے آئی جس نے تاریخ میں پہلی مرتبہ بچوں میں ان روئیوں کا مشاہدہ کیا جو ان میں خوشی کے جذبات ابھارسکتے ہیں۔ اس تحقیقی ٹیم کی سربراہی یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا سے تعلق رکھنے والی کمبرلی شونرٹ ریچل کر رہی تھیں۔ جن کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے اس طرز کی تحقیق بچوں کی بجائے ان بڑوں میں کی گئی جو ڈپریشن کا شکار تھے۔
کینیڈا کی ریاست برٹش کولمبیا کے شہر وینکوور کے ایک اسکول کے نو سے گیارہ برس کی عمروں کے چار سو بچوں کو کہا گیا کہ وہ اپنے ان ساتھی طالبعلموں کے نام بتائیں جن کے ساتھ انہیں اسکول میں کام کرنا اور مختلف سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینا اچھا لگتا ہے۔ انہیں یہ بھی کہا گیا کہ وہ بتائیں کہ وہ ان کے ساتھ کتنا خوش رہتے ہیں؟ پھر ان بچوں کو دو گروپوں میں تقسیم کر دیا گیا۔
ایک گروپ کے بچوں سے کہا گیا کہ وہ ہفتے میں ایک مرتبہ رحمدلی کا کوئی مظاہرہ کرنے کی کوشش کریں۔ جیسا کہ ساتھی طالبعلموں کے ساتھ اپنا دوپہر کا کھانا مل بانٹ کر کھانا یا پھر اپنے ساتھی طالبعلم کی پریشان دکھائی دینے والی والدہ کو پیار سے گلے لگانا۔
دوسرے گروپ میں شامل بچوں سے کہا گیا کہ وہ ان پرفضاء مقامات مثلا کوئی پارک یا پھر نانا، داداکے گھر جانے جیسے واقعات کی ایک فہرست تیار کریں جہاں وہ ہر ہفتے جاتے ہوں۔
چار ہفتوں بعد تمام طالبعلموں سے ان چیزوں کے بارے میں پوچھا گیا جو انہیں خوش کرتی ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ وہ یہ بتائیں کہ انہیں اپنے کس ساتھی طالبعلم کے ساتھ کام کرکے اچھا لگتا ہے۔
دوسرے گروپ کے بچوں کو ان جگہوں کا تذکرہ کرکے بھی خوشی ہوئی جہاں جا کر انہیں اچھا لگا تھا۔ کمبرلی شونرٹ ریچل کہتی ہیں کہ ’’لیکن ایک فرق یہ تھا کہ جن بچوں نے آپس میں رحمدلی کا مظاہرہ کیا تھا، انہیں اپنے وہ ساتھی طالبعلم زیادہ اچھے لگنے لگے جن کے ساتھ انہیں کام کرکے اچھا لگا تھا۔ پہلے گروپ میں بچے ایک دوسرے کو دوسرے گروپ کی نسبت زیادہ پسند کرتے تھے‘‘۔
کمبرلی شونرٹ کہتی ہیں کہ جو طالبعلم رحمدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ اپنے ساتھی طالبعلموں کو اپنے سے کمزور اور مختلف نہیں سمجھتے اور اسکول میں انکا مذاق اڑانے یا تضحیک کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس عمل کو امریکہ میں bullying کہا جاتا ہے۔ ’’یقینا اس حوالے سے ہمیں مزید سائنسی تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ اس سے بچوں میں ایک دوسرے کا مذاق اڑانے کا سلسلہ ختم کرنا ممکن ہے۔ لیکن میں ایک بات یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ اگر آپ کو اپنا ساتھی طالبعلم پسند ہے تو اس بات کا امکان کم ہے کہ آپ اسے مذاق کا نشانہ بنائیں گے۔‘‘
کمبرلی شونرٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان باتوں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خوش بچے زیادہ بہتر طالبعلم ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کے ذہن نئی معلومات حاصل کرنے کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ مزے کی بات ہے کہ ایک تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ اگر آپ کوئی پروفیسر ہیں یا پھر ٹیچر، اور آپ ایسے وقت میں پرچے دیکھ رہے ہوں جس وقت آپ خوش ہوں، تو اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ آپ زیادہ نمبر دیں گے‘‘۔