پاکستان میں اِن دِنوں ایک کالعدم مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ حکومت ایک طرف ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دے کر اُس سے دہشت گرد تنظیموں کی طرح نمٹنے کا اعلان کر چکی ہے۔ تو دوسری جانب حکومت بار بار اسی کالعدم جماعت سے مذاکرات بھی کر رہی ہے۔
حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت ٹی ایل پی کے خلاف طاقت کے استعمال کی منظوری کابینہ سے لے چکی ہے۔ ٹی ایل پی کے احتجاج کے باعث لاہور اور راولپنڈی کے درمیان جی ٹی روڈ مختلف مقامات پر بند ہے جس کے باعث مسافروں، شہریوں اور کاروباری افراد کو مشکلات کا سامنا ہے۔
مبصرین سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں مذہبی رحجان اس قدر مضبوط ہے کہ وہ اپنی اسٹریٹ پاور سے حکمرانوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ طاقتور حلقوں کو بھی اپنی عبادات اور شادیوں کی تصاویر صرف اِس لیے شائع کرنی پڑتی ہیں تا کہ لوگوں پر اُن کا عقیدہ واضح ہو۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرینسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر بات کرتے ہوئے کئی مرتبہ سوچنا پڑتا ہے کیوں کہ اِس کی بنیاد کا تعلق پاکستان کے بننے سے ہے۔ پاکستان بنتے وقت یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ ایک اسلامی ریاست ہے جس پر سب نے اتفاق کیا اور پاکستان کے دستور میں بھی یہی لکھا ہے۔
’سیکولر ملک بھی بعض اوقات مذہبی معاملات میں مجبور ہو جاتے ہیں‘
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے احمد بلال نے کہا کہ پاکستان میں جب بھی مذہبی جماعتوں کی طرف سے کوئی مطالبہ ہوتا ہے تو اُسے ٹالنا یا اُس کا مقابلہ کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ اُس پر سیاسی جماعتوں کو ثابت کرنا پڑتا ہے کہ یہ مذہبی ہے یا نہیں۔
اُن کے مطابق یہی چیز حساسیت ہے کہ جب مذہبی معاملات آ جاتے ہیں تو اُس میں منطق استعمال نہیں کی جاتی۔
احمد بلال محبوب کی رائے میں پاکستان چوں کہ ایک سیکولر ملک نہیں ہے۔ بعض اوقات سیکولر ملک بھی مذہبی معاملات میں مجبور ہو جاتے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ مذہبی جماعتوں کی بات سن لیں اور اُنہیں دلائل کے ساتھ اپنے ساتھ ملا لیں تو ٹھیک ہے۔ بصورتِ دیگر اُن کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر حکومت سختی بھی کرنا چاہے تو حکومت کے اندر کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو حکومت سے اتفاق نہیں کرتے, جس کے باعث حکومت یہ نہیں چاہتی کہ ملک کے اندر افراتفری ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی حکومتیں کسی نہ کسی بہانے سے ایسے معاملات کو ٹالی رہتی ہیں۔
’حکومت کی کمزوریاں اور ریاستی بیانیہ‘
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کے خیال میں ایسے معاملات میں حکومت کی کمزوریاں اور ریاستی بیانیہ شامل ہے۔ وہ مذہبی جماعتوں اور شدت پسند جماعتوں میں فرق نہیں کر سکی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مظہر عباس نے کہا کہ ایسی ہی صورتِ حال عالمی سطح پر بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ یعنی کچھ جماعتیں ایسی ہیں جو الیکشن اور جمہوریت پر یقین رکھتی ہیں۔ جب کہ کچھ ایسی جماعتیں بھی ہیں جو جمہوریت پر یقین نہیں رکھتیں۔ وہ شدت پسندی پر یقین رکھتی ہیں۔
اُنہوں نے اپنی بات جاری رکتھے ہوئے کہا کہ ایسی جماعتوں میں القاعدہ اور تحریک طالبان شامل ہیں۔ اِنہی کا دوسرا انداز تحریک لبیک پاکستان کی شکل میں نظر آتا ہے۔ جس کو الیکٹورل سپورٹ بھی حاصل ہے۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ بعض مرتبہ سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مذہبی جماعتوں کو استعمال کرتی ہیں۔ ایسی ہی بات مذہبی جماعتوں کے بارے بھی کہی جا سکتی ہیں۔
’حکومتیں مذہب کے بارے میں زیادہ بات کرتی ہیں‘
پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رکن زہرہ یوسف سمجھتی ہیں کہ پاکستان میں 70 کی دہائی سے جتنی بھی سیاسی حکومتیں آئی ہیں۔ وہ مذہبی انتہا پسندی کے خلاف کوئی واضح مؤقف نہیں اپنا سکی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے زہرہ یوسف نے کہا کہ 1974 میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے ترمیم کے ذریعے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ اُس کے بعد جنرل ضیا الحق نے اپنی حکومت کو چلانے اور اُسے صحیح کہلوانے کے لیے اسلام کو استعمال کیا۔
اُن کے مطابق ضیا الحق نے مذہب اور سیاست کو جس طرح استمال کیا اُس کے بعد کسی بھی حکومت نے مذہبی شدت پسندی کا مقابلہ نہیں کیا۔ نواز شریف کی حکومت جو آئی جے آئی کی چھتری تلے بنی، اُنہوں نے بھی ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی کی۔
زہرہ یوسف کی رائے میں جو حکومتیں کمزور ہوتی ہیں وہ مذہب کے بارے میں اور زیادہ بات کرتی ہیں۔ موجودہ حکومت بھی کمزور ہے۔
حکومت اور حزبِ اختلاف کی سوچ کا فرق کیوں؟
سیئر صحافی مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ اصل میں یہ اقتدار کی جنگ ہے جہاں اِن چیزوں کی اہمیت ہے۔
اُن کے بقول پاکستان میں گزشتہ 30 سے 40 برس میں انتہا پسندی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اُس کے خلاف حزبِ اختلاف میں رہتے ہوئے باتیں کرنا اور بات ہوتی ہے اور جب وہی جماعتیں اقتدار میں آ جاتی ہیں تو اقتدار کے محرکات اور ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتوں کو سخت فیصلے کرنے سے قبل اُن کے نتائج کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مظہر عباس نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) ایک سیکولر جماعت نظر آتی ہے البتہ پیپلز پارٹی پر بہت سے ایسے الزامات ہیں جس کے تحت پیپلز پارٹی نے بہت سے اہم موقعوں پر مذہبی جماعتوں کے ساتھ مفاہمت کی۔
اُن کے مطابق مسلم لیگ (ن) سیکولر جماعت نہیں ہے البتہ ایسا ہی پی ٹی آئی کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ اِن دونوں جماعتوں میں دونوں طرح کے نظریات کے حامل لوگ نظر آئیں گے۔ یہ سب پاور پالیٹکس کے لیے ہوتا ہے۔ اُنہیں ڈر ہوتا ہے کہ کہیں وہ مذہبی ووٹ نہ کھو دیں۔
ایچ آر سی پی کی رکن زہرہ یوسف سمجھتی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں فیض آباد دھرنے میں ٹی ایل پی کی حوصلہ افزائی کی گئی جس سے اِن کی قوت بڑھتی چلی گئی۔
پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں جب حکومت میں ہوتی ہیں تو اُن کو بہت سی حقیقتوں، فیصلوں اور اُن کے نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن جب سیاسی جماعتیں حزِب اختلاف میں ہوتی ہیں تو اُنہیں ایسا کچھ نہیں کرنا ہوتا۔ اُن کے پاس یہ موقع ہوتا کہ وہ جو چاہیں کہہ دیں حکومت پر جو چاہے تنقید کر دیں۔
ایک مثال سے سمجھاتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ عمران خان جب حزبِ اختلاف میں تھے اور اُنہوں نے جو باتیں کی تھیں۔ وہ بہت بڑی باتیں تھیں۔ لیکن اَب جب وہ حکومت میں آئے ہیں تو اُن کے لیے ایسا کچھ بھی کرنا ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ اُنہیں اب حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب وہ ایسی باتیں نہیں کہہ سکتے جیسی وہ حزبِ اختلاف میں رہتے ہوئے کہتے تھے۔ یہ ایک طرح کا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں عام طور پر جب ایک سیاسی جماعت اپوزیشن سے حکومت میں آتی ہے تو وہ اپنی بات سے پیچھے ہٹتی ہے اور دوسری جانب حکومت سے اپوزیشن میں جانے والی جماعت اپنا بدلہ لیتی ہے۔ اُن کا یہ نظریہ ہوتا ہے کہ اِس جماعت نے فلاں وقت پر اُن کا ساتھ نہیں دیا تھا۔
احمد بلال محبوب کے مطابق ماضی میں برسرِ اقتدار رہنے والی دو جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اِس کا مزہ چکھ چکی ہیں جس کے نتیجے میں چارٹر آف ڈیموکریسی بھی ہوا۔ لیکن پی ٹی آئی ایک نئی حکمران جماعت ہے۔ اگر تو وہ یہ تمام باتیں آسانی سے سیکھ لیں تو اچھا ہے، لیکن ایسا لگتا نہیں ہے۔
مذہبی جماعتیں ایوان میں کم اور ایوان سے باہر زیادہ متحرک کیوں ہیں؟
ایچ آر سی پی کی رکن زہرہ یوسف کی رائے میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے پاس عوام کی اتنی حمایت نہیں ہے البتہ پاکستان میں جتنی اسلام کی بات ہوتی ہے۔ آئین سے لے کر دیگر موضوعات تک تو ہر سیاسی جماعت میں ایک طرح کی مقابلے کی فضا ہے کہ کون زیادہ مذہب کی بات کرتا ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتیں صرف ایک بار ہی ایک صوبے میں مخلوط حکومت بنا سکی ہیں۔ لیکن وفاقی میں کبھی حکومت نہیں بنا سکیں اور نہ ہی مرکزی حکومت میں اُن کا کوئی خاص عمل دخل رہا ہے۔
تجزیہ کار مظہر عباس کی رائے میں مذہبی سیاسی جماعتیں پریشر گروپ زیادہ ہیں۔ اُن کے پاس ووٹ کی طاقت اتنی نہیں ہوتی۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ 2002 میں مذہبی جماعتوں کے پاس ووٹ کی طاقت تھی۔ اُنہوں نے خیبرپختونخوا میں حکومت بنائی البتہ وہ حکومت زیادہ عرصے چل نہیں سکی۔
واضح رہے 2002 سے 2007 تک خیبر پختونخوا میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کی حکومت تھی۔
مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ مذہبی سیاسی جماعتوں کے نعروں میں کشش زیادہ ہوتی ہے جس کے باعث ایسی جماعتیں ایوان کے باہر مخصوص ایشوز پر عوام کو زیادہ متحرک کرتی ہیں اور ایسا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ ایسی جماعتوں کے پاس اُن کی اصل طاقت مدرسے ہوتے ہیں جہاں کے طلبہ کے پاس ووٹ تو نہیں ہوتا لیکن مجمع اکٹھا کرنے کی صلاحیت ضرور ہوتی ہے۔
ان کے مطابق ایسی جماعتیں ایک دو لاکھ کا مجمع اکٹھا کر لیتی ہیں لیکن جب ووٹ کی باری آتی ہے تو وہ زیادہ ووٹ حاصل نہیں کر پاتیں۔
پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کی رائے میں یہ ایک اچھی بات ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتیں انتخاب لڑ رہی ہیں اور ایوان میں موجود ہیں۔ اُن کی رائے میں اگر وہ یہ نہ کر رہی ہوتیں تو اِس سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتیں۔
احمد بلال سمجھتے ہیں کہ جب ایسی جماعتیں ایوان میں آئی ہیں تو اُن کو بولنے کا موقع دیا جائے۔ اُنہیں دیوار کےساتھ نہ لگایا جائے تا کہ وہ اپنی بھڑاس اسمبلی میں ہی نکال لیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ مذہبی سیاسی لوگوں کا یہ خیال ہے کہ انہیں ہروایا گیا ہے اور اُنہیں ایوان میں نہیں آنے دیا گیا۔
ایک مثال سے سمجھاتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ جے یو آئی ایف کے مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت تو ایوان میں موجود ہے البتہ وہ خود ہار گئے ہیں۔ اگر اُنہیں ایوان میں آنے دیا جاتا تو شاید وہ اتنی شدت سے حکومت کے خلاف برسرِ پیکار نہ ہوتے۔
احمد بلال کے بقول پاکستان میں اسٹریٹ پاور کی عزت کی جاتی ہے۔ جو بات ایوان میں کی جاتی ہے اُسے اتنی اہمت نہیں دی جاتی۔ اسٹریٹ پاور ہی کی بات مانی جاتی ہے۔ یہاں تک کے عدالتیں بھی اسٹریٹ پاور سے اثرانداز ہوتی ہیں۔
اُن کی رائے میں اگر کسی چیز کے بارے میں بہت بڑا فیصلہ ہو جائے تو عدالتیں بھی اُن کے متضاد فیصلہ کرتے ہوئے سوچتی ہیں۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے پاکستان کے ذرائع ابلاغ پر چلنے والی ایسی خبروں کی تردید کی ہے جس میں کہا جا رہا تھا کہ الیکشن کمیشن تحریک لبیک پاکستان پر پابندی لگانے میں اپنا کردار ادا نہیں کر رہا۔
ترجمان الیکشن کمیشن ہدٰی گوہر نے اس سلسلے میں وضاحت کی کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل17(2) اور الیکشن ایکٹ کی دفعہ 212 کے تحت وفاقی حکومت اگر کسی سیاسی جماعت کو پاکستان کی حاکمیت اور سالمیت کے لیے مضر سمجھتی ہے یا دہشت گردی میں ملوث ہے تو وہ اس بارے میں اعلان کرے۔
الیکشن کمیشن کی ترجمان ہدیٰ گوہر کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت اس سلسلے میں 15 دن کے اندر ریفرنس سپریم کورٹ میں جمع کرائے گی۔ اگر سپریم کورٹ ریفرنس کے حق میں فیصلہ دے تو وہ سیاسی پارٹی فوری طور پر تحلیل تصور ہو گی۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن بذریعہ گزٹ نوٹیفکیشن سیاسی جماعت کے ارکان کو ممبر مجلس شوریٰ، صوبائی اسمبلی یا لوکل گورنمنٹ بننے کے لیے نااہل قرار دے گا۔