امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ کے پاکستان کے دورے کا مقصد پاکستانی شراکت داروں، افغانوں اور انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرنے والی تنظیموں کے ساتھ افغانستان کے اندر مشترکہ مفادات کے حوالے سے مشاورت کرنا ہے۔ ترجمان کے بقول مسٹر تھامس اپنے ہم منصبوں کے ساتھ مل کر ایک ایسے علاقائی اور عالمی لائحہ عمل کی تشکیل پر کام کر رہے ہیں جو افغانستان کی خواتین کی تعلیم اور ان کے حقوق کے لیے کے لیے اجتماعی عزم کا عکاس ہو۔
ترجمان نے کہا ہے کہ امریکی وفد اس دورے میں طالبان کے ساتھ بالواسطہ یا بلاواسطہ بات کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے۔ امریکی حکومت ان کے بقول طالبان کے ساتھ رابطوں سے متعلق اپنی پالیسی پر طالبان کے افغان خواتین کے خلاف امتیازی اور جابرانہ احکامات کے پس منظر میں نظر ثانی کر رہی ہے۔
امریکہ کا اعلی سطحی وفد پاکستان کا ایسے وقت میں دورہ کر رہا ہے جب پشاور میں ایک بڑا ہلاکت خیز حملہ ہوا ہے جس میں 101 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ملک کے اندر سیکیورٹی کے معاملات ایک بار پھر زیر بحث ہیں۔اور ملک اس حملے کے اثرات سے باہر آنے کی کوشش کر رہاہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے اس حوالے سے وی او اردو کو بتایا کہ امریکہ پاکستانی قیادت کے ساتھ مستقل رابطے میں ہے اور متعدد اہم امور پر گفتگو کر رہا ہے۔
’’ پشاور دھماکہ ایک خوفناک یاددہائی ہے کہ دہشتگردی کی لعنت اب بھی موجود ہے جو پاکستان ، افغانستان اور خطے کے اندر بدستور معصوم جانیں لے رہی ہے۔‘‘
ترجمان نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان کے مشترکہ مفاد میں ہے کہ دونوں ملک اس بات کو یقینی بنائیں کہ دہشت گرد گروپ خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ نہ بن سکیں۔
پاکستان کی موجودہ حکومت میں شامل وزرا ہوں یا سابق وزیراعظم عمران خان، ان کی جانب سے امریکہ پر یہ تنقید سامنے آتی ہے کہ امریکہ نے مجاہدین پیدا کیے جو اب جو دہشت گرد بن چکے ہیں۔ اس سوال پر محکمہ خارجہ کے ترجمان نے اپنے تحریری بیان میں کہا کہ علاقائی سلامتی کو لاحق خطرات سے نمٹنا ، امریکہ اور پاکستان کا مشترکہ مفاد ہے۔ ہم دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے حکومت پاکستان کی کوششوں کی ہر طرح سے حمایت کرتے ہیں۔