پاکستان میں صحافیوں کے خلاف حالیہ مقدمات اور گرفتاریوں پر جہاں مختلف حلقوں کی جانب سے مذمت کی جا رہی ہے تو وہیں صحافتی تنظیمیں بھی اس معاملے پر منقسم نظر آتی ہیں۔
ان دنوں بظاہر سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے حمایتی صحافی زیرِ عتاب نظر آتے ہیں۔ بعض صحافیوں کا مؤقف ہے کسی سیاسی جماعت کی حمایت کرنے والے صحافی کے خلاف کارروائی کی مذمت نہیں کی جا سکتی جب کہ بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ کسی بھی صحافی کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر آواز بلند کرنی چاہیے۔
اینکر عمران ریاض خان کی گرفتاری کے بعد سامنے آنے والے ردِعمل میں بعض صحافیوں نے عمران ریاض اور ان کی طرح پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مؤقف کی بظاہر حمایت کرنے والے صحافیوں کو سیاسی جماعت کا ورکر قرار دیا ہے۔ اور ان کی گرفتاری پر کوئی احتجاج بھی نہ کرنے کا کہا ہے۔
اس صورتِ حال میں تحریک انصاف کے مؤقف کے بظاہر حامی دیگر صحافیوں کی طرف سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
تجزیہ کاروں اور صحافتی تنظیموں کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ پورے معاشرے میں جیسے تقسیم نظر آرہی ہے وہی صحافیوں میں بھی نظر آ رہی ہے۔ اس میں سیاسی جماعتیں اور ریاستی ادارے برابر کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے اس تفریق کو فروغ دیا ہے۔
جمعرات کو پاکستان کے صدر عارف علوی نے صحافیوں پر تشدد کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ آزاد رائے رکھنے والی میڈیا شخصیات کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ اینکر عمران ریاض خان کو گزشتہ دنوں راولپنڈی سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے خلاف پنجاب کے مختلف تھانوں میں 17 مقدمات پہلے سے ہی درج تھے۔لیکن ان کی گرفتاری اٹک میں درج ہونے والے ایک مقدمے میں کی گئی۔ اگرچہ یہ مقدمہ عدالت کی جانب سے ختم کردیا گیا مگر انہیں چکوال پولیس نے ایک اور مقدمے میں گرفتار کرلیا۔
اب چکوال پولیس کی طرف سے بھی مقدمہ ختم ہونے کے بعد انہیں لاہور پولیس کے حوالے کردیا گیا ہے۔
عمران ریاض کی گرفتاری سے کچھ دن قبل ہی سینئر صحافی ایاز امیر کو بھی نجی ٹی وی چینل سے پروگرام کرنے کے بعد گھر جاتے ہوئے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
ان دونوں میڈیا شخصیات کے ساتھ پیش آئے واقعات پر صحافتی تنظیموں کی طرف سے مذمت تو کی گئی مگر بڑے پیمانے پر مظاہرے دیکھنے میں نہیں آئے۔
صحافیوں میں تقسیم بڑھتی جارہی ہے: ناصر زیدی
سینئر صحافی اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس(پی ایف یو جے) کے سیکریٹری جنرل ناصر زیدی کہتے ہیں کہ صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن ہمیشہ سے جار ی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بننے سے لےکر اب تک صحافیوں کے خلاف پابندیاں ایسے ہی لگتی رہی ہیں اور صحافیوں کو دبا کر آزادئ اظہارِ رائے پر پابندیاں لگائی گئی ہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ عمران خان کی حکومت میں صحافیوں پر پابندیاں لگانے میں ریاستی ادارے شامل ہوئے۔ ان چار برسوں میں فریڈم انڈیکس میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ یہ سلسلہ کل بھی جاری تھا اور اب بھی ریاستی اور سرکاری سطح پر جاری ہے۔
اس سوال پر کہ کیا صحافی سیاسی جماعت کے ساتھ چل سکتا ہے؟ ناصر زیدی کا کہنا تھا کہ صحافی کا کام سامنے آنے والی چیز کو عوام کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے۔لیکن اگر وہ رپورٹ کرتے ہوئے کسی ایک کی حمایت کرنا شروع کر دے تو اس کی رپورٹنگ میں تعصب آ جاتا ہے اور تعصب زدہ صحافت کو کبھی بھی اچھی صحافت نہیں مانا جاسکتا۔
ان کے بقول اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ملکی سطح پر سیاست میں بہت زیادہ تقسیم پائی جاتی ہے اور یہی تقسیم صحافت میں بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صحافت کے لیے دنیا بھر میں ضابطۂ اخلاق موجود ہے۔ لیکن اس پر عمل درآمد کا کبھی نہیں سوچا جاتا۔ حالیہ عرصے میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک کیس میں یوٹیوب پر آنے والے صحافیوں کے لیے ضابطہ اخلاق اور فورم ہم نے تجویز کیا اور بتایا کہ اگر اس ضابطۂ اخلاق پر عمل درآمد کیا جائے تو صحافیوں کے خلاف درج مقدمات ختم کیے جاسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ کئی برسوں سے ریاستی بیانیہ اور مبینہ ریاستی مداخلت اتنی زیادہ رہی ہے کہ اب تقسیم بہت بڑھ چکی ہے۔ اس کو کم صرف صحافیوں کو ضابطۂ اخلاق کا پابند بنا کر کیا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ صحافیوں کی تربیت کا بندوبست کیا جائے ورنہ تقسیم کا یہ عمل مزید گہرا ہوگا۔
ہر دور میں صحافیوں کی سیاسی ہمدردیاں رہی ہیں: رانا عظیم
پی ایف یو جے کے سابق صدر رانا عظیم کہتے ہیں کہ موجودہ صورتِ حال سے لگتا ہے کہ ''نیم مارشل لا'' لگ چکا ہے۔ آپ کو پابند کردیا گیا ہے کہ کسی کے خلاف کوئی بات نہیں ہوسکتی، کسی پر تنقید نہیں ہوسکتی۔ وہ سب پابندیاں لگ رہی ہیں جو مارشل لا دور میں ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا پیکا ایکٹ کے خلاف ہم عدالت گئے اور ہائی کورٹ نے اس قانون کو ختم کردیا لیکن اب بھی صحافیوں کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمات بنائے جارہے ہیں۔ ان کی زبان بندی کی جارہی ہے۔
صحافیوں میں تقسیم کے حوالے سے وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں نے ملک میں صحافیوں کو تقسیم کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چند روز قبل کچھ صحافی اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے میڈیا پر بات کرنے سے متعلق پٹیشن دائر کرنے گئے تو اس وقت کیا صحافی سیاست میں ملوث نہیں ہورہے تھے؟ اگر کوئی صحافی کسی سیاسی حکومت میں مشیر بن سکتا ہے اور عہدے حاصل کرسکتا ہے تو پھر کوئی صحافی اگر یوٹیوب چینل پر کسی سیاسی جماعت کے حق میں بات کرتا ہے تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ صحافی نہیں ہے۔
عمران ریاض کے بارے میں رانا عظیم کا کہنا تھا کہ عمران ریاض کو اس وجہ سے گرفتار نہیں کیا گیا کہ انہوں نے کسی سیاسی جماعت کی حمایت کی بلکہ اس لیے گرفتار کیا گیا کہ انہوں نےپاکستان کے طاقت ور لوگوں کے خلاف اپنے چینل پر بات کی۔
رانا عظیم نے کہا کہ وہ تمام قوتیں کامیاب ہوگئی ہیں جو صحافیوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کررہی تھیں۔ یوٹیوبر اور عام صحافیوں کو الگ کیا جارہا ہے۔اسدطور پر جب حملہ ہوا تو سب نے احتجاج کیا لیکن آج عمران ریاض کی گرفتاری پر کوئی احتجاج نہیں کیا جارہا ۔ان کے بقول سلیم شہزاد کسی صحافتی تنظیم میں شامل نہ تھا لیکن اس کے لیے صحافیوں نے دو دن تک پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دیا۔
انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت اور ریاستی ادارے اس خلیج کو مزید بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن میرے خیال میں ابھی بھی صحافی اندر سے ایک ہیں اور مل کر ریاستی اداروں اور حکومت کے اس ایجنڈے کو ناکام بنائیں گے۔
اختلاف کی بنیاد پر نشانہ بنانا مناسب نہیں: زہرہ یوسف
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سابق چئیرپرسن زہرہ یوسف کہتی ہیں کہ کسی بھی صحافی کے سیاسی خیالات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ان بنیاد پر ان کے خلاف کارروائیاں کرنا کسی طور مناسب نہیں۔ موجودہ حکومت برسرِاقتدار آئی تو انہوں نے کہا کہ وہ آزادئ اظہارِ رائے پر کوئی پابندی عائد نہیں کریں گی لیکن یہ سلسلہ لگاتار جاری ہے۔
ان کے بقول گزشتہ حکومت میں صحافیوں کو ہراساں کیا گیا، ان کو اٹھایا گیا۔ اب ہم سوچ رہے تھے کہ شاید ایسا نہ ہو لیکن صحافیوں پر تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ صحافی ایاز امیر پر حملہ اس کی مثال ہے۔ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان کا ریکارڈ پہلے ہی خراب تھا اور ایسے واقعات سے پاکستان مزید تنزلی کا شکار ہوگا۔
صدر مملکت کا نوٹس
گزشتہ روز صدرِمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کو اس ضمن میں اقدامات کرنے کا کہا ہے۔
صدر مملکت کا وزیراعظم کے نام خط میں کہنا تھا کہ صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات عدم برداشت کی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایسے واقعات سے جمہوریت کے مستقبل اور آزادئ اظہارِرائے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
صدر نے پاکستان فریڈم آف پریس انڈیکس 2022 میں پاکستان کی 157 ویں پوزیشن پر اظہارِ تشویش کرتے ہوئے کہا کہ مختلف بین الاقوامی تنظیموں نے اپنی رپورٹس میں صحافیوں کو ہراساں کرنے ، دھمکیاں دینے اور جسمانی تشدد کو پاکستان کی مایوس کن پوزیشن کی بنیادی وجوہات قرار دیا ہے۔
یاد رہے کہ عالمی صحافتی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کی 2022 کی ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان 12 درجے تنزلی کے ساتھ 157ویں نمبر پر چلا گیا تھا۔
صدر نے بین الاقوامی اداروں کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں 1992 سے 2022 تک 96 صحافیوں کو قتل کیا گیا ۔ ان رپورٹس میں الزام لگایا گیا کہ ریاست کے طاقت ور عناصر کے خلاف اختلاف رائے اور تنقید دبانے کے لیے صحافیوں کو بغاوت اور دہشت گردی کے الزامات کا نشانہ بنایا گیا۔
صدر نےصحافیوں کے خلاف پرتشدد واقعات کی مثال دیتے ہوئے عزیز میمن اور ناظم جوکھیو قتل جبکہ مطیع اللہ جان اغوا، اسد علی طوراور ابصار عالم کو نامعلوم افراد کی طرف سے حملہ کر کے زخمی کرنے کا بھی حوالہ دیا۔
عارف علوی نے کہا کہ لاہور میں کئی عینی شاہدین کی موجودگی میں ایاز امیر پر نامعلوم افراد نے رش کے اوقات میں سڑک پر حملہ کیا۔اس کے علاوہ سمیع ابراہیم، ارشد شریف، صابر شاکر، عمران ریاض خان اور معید پیرزادہ کے خلاف مختلف تھانوں میں متعدد ایف آئی آر زدرج کرائی گئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ معروف صحافیوں کے خلاف کیے جانے والے حالیہ اقدامات نے عدلیہ کی کوششوں کو نقصان پہنچایاہے۔
صدر نے کہا کہ گزشتہ حکومتوں کے اقدامات یا بے عملی کو ایسی خلاف ورزیوں کو دہرانے کے لیے وجہ کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے وزیرِاعظم شہباز شریف سے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے صحافیوں اور میڈیا پرسن کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔
خیال رہے کہ پاکستان میں ہر حکومت اظہارِ رائے پر پابندی کے تاثر کو مسترد کرتی رہی ہے۔ موجودہ حکومت کا بھی یہی مؤقف رہا ہے کہ آزادیٔ اظہار پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ تاہم ریاستی اداروں پر الزامات عائد کرنے والے کسی بھی شخص کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہو گی۔