امریکہ کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان رابرٹس نے ایک جج سے متعلق صدر ٹرمپ کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی جج کو اسے نامزد کرنے والے صدر سے جوڑنا درست نہیں ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ چیف جسٹس رابرٹس نے صدر ٹرمپ کے کسی بیان پر یوں سرِ عام تنقید کی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کی حالیہ تاریخ میں کسی چیف جسٹس کی جانب سے کسی موجودہ صدر کے بارے میں اس نوعیت کے بیان کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
صدر ٹرمپ نے منگل کو امریکی شہر سان فرانسسکو کے اس جج کو "صدر اوباما کا جج" قرار دیا تھا جس نے رواں ہفتے غیر قانونی تارکینِ وطن سے پناہ کی درخواستیں نہ لینے کے صدر کے حکم نامے کو معطل کردیا تھا۔
سان فرانسسکو کے ڈسٹرکٹ جج جان ٹیگار کو سابق صدر براک اوباما نے اس عہدے پر نامزد کیا تھا۔
صدر کے بیان پر اپنے ردِ عمل میں چیف جسٹس جان رابرٹس نے بدھ کو ایک مختصر بیان میں امریکہ کی وفاقی عدلیہ کی آزادی کا دفاع کیا ہے اور اس تاثر کو رد کیا ہے کہ عدالت کے جج ان صدور کے وفادار ہوتے ہیں جنہوں نے انہیں نامزد کیا ہو۔
سپریم کورٹ سے جاری ہونے والے بیان میں چیف جسٹس نے کہا ہے، "ہمارے پاس اوباما کے جج یا ٹرمپ کے جج، بش کے جج یا کلنٹن کے جج نہیں۔ ہمارے پاس صرف ایسے غیر معمولی اور اپنے کام سے لگاؤ رکھنے والے جج ہیں جو اپنے سامنے پیش ہونے والوں کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔"
بیان کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے، "آزاد عدلیہ ہی وہ چیز ہے جس پر ہم سب کو شکر ادا کرنا چاہیے۔"
سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کی جانب سے یہ بیان امریکی خبر رساں ادارے 'دی ایسوسی ایٹڈ پریس' کے ایک سوال پر جاری کیا ہے جس نے صدر ٹرمپ کے "اوباما کے جج" سے متعلق متنازع بیان پر چیف جسٹس کا ردِ عمل جاننے کے لیے عدالت سے رابطہ کیا تھا۔
صدر ٹرمپ کی پھر تنقید
امریکی چیف جسٹس کے اس غیر روایتی بیان پر بھی صدر ٹرمپ نے فوری ردِ عمل ظاہر کیا ہے اور ان ججوں کی غیر جانب داری پر پھر سوال اٹھائے ہیں جن کی تعیناتی ان کے پیش رووں کی نامزدگی پر عمل میں آئی۔
بدھ کو چیف جسٹس کے بیان کے کچھ دیر بعد ہی فلوریڈا میں واقع اپنی تفریحی رہائش گاہ سے کیے جانے والے ٹوئٹس میں صدر ٹرمپ نے چیف جسٹس جان رابرٹس کو نام لے کر مخاطب کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ان کے بیان سے متفق نہیں۔
صدر نے لکھا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ عدالتوں میں "اوباما کے جج" موجود ہیں "جن کے نظریات ان لوگوں سے بہت مختلف ہیں جنہیں عوام نے اپنے ملک کے تحفظ کی ذمہ داری سونپی ہے۔"
صدر نے امریکہ کی مغربی ریاستوں پر مشتمل عدالتی حلقے "نائنتھ سرکٹ" کا نام لے کر کہا ہے کہ اگر اس کے جج واقعی آزاد ہیں تو آخر کیوں سرحد اور سکیورٹی سے متعلق مخالفانہ مقدمات انہی عدالتوں میں دائر کیے جاتے ہیں اور کیوں ان میں سے بیشتر مقدمات کا فیصلہ حکومتی اقدامات کے خلاف آتا ہے؟
صدر نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ ان عدالتوں کے فیصلے امریکہ کو غیر محفوظ کر رہے ہیں جو ان کے بقول "انتہائی خطرناک اور غیر دانش مندانہ عمل ہے۔"
صدر ٹرمپ اس سے قبل بھی اپنے اور اپنی حکومت کے اقدامات کے خلاف فیصلے سنانے والے ججوں کو براہِ راست تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ چیف جسٹس جان رابرٹس نے صدر کے عدلیہ مخالف کسی بیان پر ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔
صدر ٹرمپ سے قبل امریکہ میں صدور کی جانب سے عدالتوں کے ججوں کو ذاتی سطح پر تنقید کا نشانہ بنانے کی مثالیں نہ ہونے کے برابر ہیں جب کہ کسی چیف جسٹس کی جانب سے صدر کے بیان پر ردِ عمل کا اظہار بھی امریکہ کی حالیہ تاریخ میں انوکھی بات ہے۔
امریکہ کا عدالتی نظام
واضح رہے کہ 'نائنتھ سرکٹ' کے دائرے میں آنے والی بیشتر عدالتوں کے جج لبرل خیالات کے حامل سمجھے جاتے ہیں اور اسی لیے صدر کے مخالفین ان کی پالیسیوں کے خلاف مقدمات کے لیے ان عدالتوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
امریکہ میں جج کے کسی نظریے یا رجحان کا حامل ہونا خلافِ معمول بات نہیں اور دعوے دائر کرنے والوں کا اپنے خیالات کے حامی سمجھے جانے والے ججوں کی عدالتوں سے رجوع کرنا بھی معمول کی بات ہے۔
صدر اوباما کے دور میں بھی ان کے مخالفین ان کے اقدامات کے خلاف بیشتر مقدمات ٹیکساس اور ملحقہ ریاستوں پر مشتمل عدالتی حلقے 'ففتھ سرکٹ' کی عدالتوں میں دائر کرتے تھے جس کے ججوں کی اکثریت قدامت پسند خیالات رکھتی ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ میں وفاقی عدالتوں کے ججوں کی نامزدگی کا اختیار صدر کے پاس ہوتا ہے جس کی توثیق سینیٹ کرتی ہے۔
ری پبلکن اور ڈیموکریٹ، دونوں جماعتوں سے تعلق رکھنے والے صدور عموماً اپنی جماعتوں کے نظریات کے حامل ججوں کو ہی عدالتوں میں تعینات کرتے ہیں۔
امریکہ میں جج کا نظریاتی طور پر غیر جانب دار ہونا ضروری نہیں۔ لیکن جج بننے کے بعد اس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے نظریات کو ایک طرف رکھ کر صرف شواہد کی بنیاد پر انصاف کرے گا۔