اتوار کو روس کے کچھ مشرقی علاقوں میں پولنگ کا آغاز ہوا، جس صدارتی انتخاب میں ممکنہ طور پر ولادیمیر پیوٹن تیسری مرتبہ کریملن کا اقتدارحاصل کر لیں گے۔
پولنگ سے قبل حزب مخالف نے پیوٹن اوراُن کی یونائٹڈ رشیا پارٹی کے خلاف ملک بھر میں فقید المثال احتجاج کیا۔
دسمبر میں مسٹر پیوٹن کی یونائٹڈ رشیا پارٹی کی پارلیمانی انتخابات میں فتح کے خلاف لاکھوں روسیوں نے ملک بھر کی سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کیے۔ احتجاج کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ پارٹی نے دھاندلی کے ذریعے فتح حاصل کی، جِن الزامات کو پارٹی مسترد کرتی ہے۔
’لیوادا سینٹر‘ نامی ایک غیر سرکاری تحقیقی تنظیم نے الیکشن سےقبل اپنے ایک آزادانہ عوامی جائزے میں بتایا ہے کہ اتوار کی ووٹنگ میں 62سے 66فی صد ووٹ پڑنے کی صورت میں سمجھا جاتا ہے کہ مسٹر پیوٹن دوبارہ الیکشن میں شرکت سے احتراز کریں گے۔
حالیہ جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ 30فی صد روسی سمجھتے ہیں کہ مسٹر پیوٹن دوبارہ صدر بن جائیں گے، جب کہ 57فی صد کا خیال ہے کہ وہ اب بھی قوم کے لیڈر ہیں، حالانکہ سرکاری طور پر دمتری مدویدیو صدر ہیں۔ مسٹر پیوٹن وزیر اعظم بننے سے قبل، 2000ء سے 2008ء تک دو مرتبہ روس کے صدر رہ چکے ہیں۔
مسٹر پیوٹن کے مدِ مقابل چار امیدوار ہیں ، جِن میں سے زیادہ تر روسی سیاست کی جانی پہچانی شخصیات ہیں۔
متوقع طور پر کمیونسٹ پارٹی سربراہ گیناڈی زیوگنوف دوسرے نمبر پر آئیں گے، جب کہ قوم پرست ولادیمیر زہیرنورسکی اور اربوں کے مالک میخائل پروخوروف ، جو کہ میدان میں نئے واردہوئے ہیں، اُن کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ تیسری پوزیشن کے لیےمقابلہ کریں گے۔ پیوٹن کے سابق اتحادی سرگی میرونوف جو کہ 2004ء کے صدارتی انتخاب میں آخری نمبر پر تھے، وہ شاید اِسی پوزیشن پر ہی رہیں گے۔