رسائی کے لنکس

شام کے بحران کے حل میں روس کا کردار


روس کے صدر کی چینی ہم منصب سے ملاقات (فائل فوٹو)
روس کے صدر کی چینی ہم منصب سے ملاقات (فائل فوٹو)

بین الاقوامی برادری میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ شامی بحران کو حل کرنے کی سفارتی کوششیں نا کام ہو رہی ہیں۔ روس کے صدر ولادیمر پوٹن آج کل بیجنگ میں ہیں اور وہاں بات چیت کا ایک موضوع شام کا بحران ہے۔

روس اور اس سے پہلے سوویت یونین، کئی عشروں سے شامی حکومت کو اقتصادی اور فوجی امداد فراہم کرتا رہا ہے۔ ان میں مِگ فائٹر ہوائی جہاز اور فضائی دفاع کے جدید نظام شامل ہیں۔ روس بحرِ روم میں شام کی بندرگاہ ٹارٹس میں سوویت عہد کا ایک بحری اڈا بھی چلاتا ہے اور اس کا منصوبہ ہے کہ طیارہ بردار جہازوں سمیت بڑ ے جنگی جہازوں کے استعمال کے لیے اسے جدید بنایا جائے ۔

ماہرین کہتے ہیں کہ دمشق کے ساتھ روس کے قریبی تعلقات کی وجہ سے شام کے بحران پر اس کا ردِ عمل متاثر ہوا ہے۔

شام میں 15 مہینوں کی خونریزی کے دوران ماسکو نے مغربی ملکوں کی ان کوششوں کی مزاحمت کی ہے کہ روس صدر بشار الاسد کی مذمت کرے۔ روس نے چین کے ساتھ مل کر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی اس قرار داد کو ویٹو کر دیا جس میں شام کے صدر سے اپنا عہدے چھوڑنے کے لیے کہا گیا تھا۔ وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے اس ویٹو کو انصاف کے منافی قرار دیا۔

پرنسٹن یونیورسٹی اور نیو یارک یونیورسٹی کے اعزازی پروفیسر سٹیفن کوہن کہتے ہیں کہ ماسکو نے اپنا ویٹو کا حق اس لیے استعمال کیا کیوں کہ اس نے محسوس کیا کہ گذشتہ سال مارچ میں جب سلامتی کونسل کی قرارداد کے تحت لیبیا میں نو فلائی زون قائم کیا گیا تھا تو اس قرارداد پر اپنے ووٹ کا استعمال نہ کرنا، بہت بڑی چوک تھی۔

’’روس سے کہا گیا تھا کہ طاقت استعمال نہیں کی جائے گی، صرف قذافی کے لیبیا میں نو فلائی زون نافذ کیا جائے گا۔ جب امریکہ کی قیادت میں نیٹو نے لیبیا میں قذافی کے خلاف جنگ شروع کر دی، تو ماسکو کی نظر میں یہ وعدے کی خلاف ورزی تھی ۔ اور اس نے کہنا شروع کر دیا کہ آئندہ کبھی ایسا نہیں ہو گا۔ ہم آئندہ کبھی طاقت کے استعمال کے بارے میں، اقوامِ متحدہ میں جہاں سلامتی کونسل میں ہمارے پاس ویٹو کا حق ہے، امریکیوں کی بات پر اعتبار نہیں کریں گے۔ لہٰذا جب حال ہی میں شام کی حکومت کے خلاف یہ معاملہ اٹھا، تو روس نے اسے ویٹو کر دیا، اور اس بات پر حیرت نہیں ہونی چاہئیے کہ ان کے ذہن میں لیبیا کا معاملہ تھا۔‘‘

کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر رابرٹ لیگولڈ کہتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ میں روس کے اقدام کے منفی نتائج نکلے ہیں۔

’’شام کے بارے میں روس نے جو موقف اختیار کیا ہے، جو چین کے موقف کی طرح ہے، اس سے امریکہ اور یورپی یونین کے ارکان کے ساتھ تعلقات کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ اس سے نہ صرف میڈیا میں، پارلیمینٹ کے بعض ارکان میں، اور یہاں کانگریس کی شخصیتوں میں ، روس کے بارے میں نا راضگی پیدا ہوئی ہے، بلکہ اس سے اوباما انتظامیہ کے ساتھ تعلقات مجروح ہوئے ہیں، اور انتظامیہ میں مایوسی اور غصہ پیدا ہوا ہے۔‘‘

اقوام متحدہ میں اپنے ویٹوز کے باوجود، ماسکو نے اقوامِ متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل، کوفی عنان کے امن منصوبے کی تائید کی ہے۔ اس منصوبے میں شہری علاقوں سے بھاری ہتھیاروں کو ہٹانا، جنگ بندی، اور شامی حکومت اور حزب ِ اختلا ف کے درمیان مذاکرات شامل ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ، ماہرین کہتے ہیں کہ روس نے اس تنازعے میں ثالث کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے ماسکو میں شامی حکومت کے عہدے داروں سے بات چیت کی ہے، اور پھرعلیحدہ سے، حزبِ اختلاف کے ارکان سے بھی مذاکرات کیے ہیں۔

نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی کے سینیئر ریسرچر جان پارکر کہتے ہیں کہ ان کی ذاتی رائے یہ ہے کہ ماسکو شام پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔

’’لیکن ایسا لگتا ہے کہ اسے اب تک کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے ۔ اگر آپ روسیوں کو کریدیں، تو ان کا خیال ہے کہ بالآخر، بشارالاسد کو اقتدار چھوڑنا پڑے گا۔ لیکن وہ اس عمل کو سست رکھنا چاہتے ہیں، اور اسے تشدد سے بچانا چاہتے ہیں، کیوں کہ اس کے پُر تشدد ہونے کے امکانات موجود ہیں۔‘‘

اقوامِ متحدہ میں روس کے سفیر ویٹلی کرکن نے حال ہی میں رپورٹروں سے باتیں کرتے ہوئے اس نکتے کی وضاحت کی۔

’’شام کی صورتِ حال ایسی ہے کہ اس سے نہ صرف شام پر بلکہ پورے علاقے پر بڑے خراب اثرات پڑ سکتے ہیں۔ یہ علاقہ، لیبیا سے لے کر ایران تک، انتہائی نازک اور حساس ہے ۔ لہٰذا ، نہ صرف شام میں، بلکہ پورے علاقے میں، ڈرامائی نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں۔‘‘

کرکن نے کہا کہ روس موجودہ صورتِ حال سے غیر مطمئن ہے۔ انھوں نے کہا کہ روس حالات کو بہتر بنانے کے لیے ہر ممکن طریقہ، اور رابطے کا ہر ذریعہ استعمال کرے گا۔

XS
SM
MD
LG