برطانیہ کی وزیرِ اعظم تھریسا مے نے پاکستانی نژاد رکنِ پارلیمان ساجد جاوید کو ملک کا نیا وزیرِ داخلہ مقرر کردیا ہے۔
ساجد جاوید کا تقرر وزیرِ داخلہ ایمبر رڈ کی جگہ کیا گیا ہے جنہوں نے برطانیہ میں مقیم تارکینِ وطن سے متعلق حال ہی میں سامنے آنے والے ایک تنازع پر استعفیٰ دے دیا تھا۔
ساجد جاوید گزشتہ 18 ماہ سے تھریسا مے کی کابینہ میں ہاؤسنگ، کمیونیٹیز اور لوکل گورنمنٹ کے وزیر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ وہ اس سے قبل کنزرویٹو پارٹی کی گزشتہ حکومت میں ثقافت اورکاروبار کے وزیر بھی رہ چکے ہیں۔
وزیرِ اعظم مے نے ساجد جاوید کی جگہ جیمز بروکن شائر کو کمیونیٹیز اور لوکل گورنمنٹ کا وزیر مقرر کردیا ہے۔ بروکن شائر اس سے قبل تھریسا مے کی کابینہ میں شمالی آئرلینڈ کے امور کے وزیر رہ چکے ہیں تاہم سرطان کے علاج کے باعث وہ رواں سال جنوری میں اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے۔
ساجد جاوید برطانیہ کے وزیرِ داخلہ بننے والے پہلے ایشیائی نژاد شخص ہیں۔ وزیرِ اعظم مے نے ان کے تقرر کا اعلان پیر کی صبح کیا اور سرکاری بیان کے مطابق ملکۂ برطانیہ نے ان کے تقرر کی منظوری دیدی ہے۔
اڑتالیس سالہ ساجد جاوید کے والدین 1960ء کی دہائی میں پاکستان سے برطانیہ آئے تھے اور وہ سیاست میں آنے سے قبل ایک بڑے بین الاقوامی بینک کے منیجنگ ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔
پاکستانی تارکینِ وطن کی ایک بڑی تعداد گزشتہ کئی دہائیوں سے برطانیہ میں آباد ہے جن کی برطانیہ میں ہی پروان چڑھنے والی نسل اب برطانیہ کی سیاست میں بھی پیش پیش ہے۔
اس وقت کئی پاکستانی نژاد سیاست دان حکمران جماعت 'کنزرویٹو' اور حزبِ اختلاف کی جماعت 'لیبر' کے ٹکٹ پر برطانوی پارلیمان کے رکن ہیں۔ برطانیہ کے دارالحکومت لندن کے میئر صادق خان کا تعلق بھی ایک تارکِ وطن پاکستانی خاندان سے ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ تارکِ وطن خاندان سے تعلق رکھنے والے سیاست دان کو وزیرِ داخلہ نامزد کرکے وزیرِ اعظم مے کی حکومت نے برطانیہ میں تارکینِ وطن کے ساتھ مبینہ ناروا سلوک سے متعلق حال ہی میں سامنے آنے والے اسکینڈل کے منفی اثرات کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔
وزیرِ داخلہ ایمبر رڈ اس اسکینڈل کے متعلق ارکانِ پارلیمان سے غلط بیانی کے الزامات کے بعد اتوار کو اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئی تھیں۔
ان پر الزام تھا کہ وہ کیریبئن ممالک سے تعلق رکھنے والے مبینہ غیر قانونی تارکینِ وطن کی برطانیہ سے بے دخلی کے ان واقعات سے آگاہ تھیں جن کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ یہ کارروائیاں ان کے علم میں لائے بغیر کی گئیں۔