سابق وزیر اعظم عمران خان کی ڈرامائی انداز میں حراست کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پاکستان میں جمہوریت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے اور اگر امن و امان کے حالات شدید خراب ہوتے ہیں تو مغرب میں پاکستان کے ایٹمی اثاثو ں کی سیکیورٹی کے بارے میں خدشات جنم لے سکتے ہیں۔
واشنگٹن میں امریکی اور پاکستانی ماہرین کہتے ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت کے پیش نظر ان کے خلاف کاروائی اور اظہار رائے اور احتجاج کے خلاف کریک ڈاون نہ صرف ملک میں جمہوری اقدار کا نقصان ہے بلکہ موجودہ عالمی تناظر میں پاکستان کے بین الااقوامی تعلقات میں سرد مہری کا باعث بن سکتا ہے۔
واشنگٹن کے دی مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے پاکستان اور افغانستان اسٹڈیز کے ڈائریکٹر مارون وائن بام کہتے ہیں کہ یہ بات تو سمجھ آتی ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلیشمنٹ عمران خان کی سیاست کو بہت زیادہ دیر تک عدم استحکام پھیلانے نہیں دے سکتی تھی لیکن جس انداز سے پی ٹی آئی راہنما کوحراست میں لیا گیا ہے اس سے بہت سے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔
وائن بام کے مطابق ان حالات میں سیاسی طور پر عمران خان کے لیے عوام میں مزید ہمدردی پیدا ہو گی جب کہ ملک کو درپیش چیلنجز بھی مزید خرابی کی طرف جا سکتے ہیں۔
’’ ایک تو یہ ہے کہ یہ کاروائی دنیا کے نظروں میں پاکستان کےتشخص کو ظاہر کرتی ہے کہ ملک اپنے معاملات سے کیسے نمٹتا ہے، دوسرا یہ کہ اس سے پیدا ہونے والی صورت حال کے پہلے سے چلے آ رہے اقتصادی اور سیکیورٹی چیلنجز پر بھی اثرات ہوں گے کیونکہ بحرانی کیفیت تحریک طالبان پاکستان جیسے انتہا پسند گروپوں کے لیے سازگار ہو گی کہ وہ اپنے حملوں میں اضافہ کر سکیں‘‘۔
وہ کہتے ہیں کہ واشنگٹن اس وقت دیکھ رہا ہے کہ حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں اور ملک میں جمہوریت اور سیکیورٹی کہاں تک متاثر ہو گی ۔
ڈاکٹر وائن بام نے کہا کہ اگر فوج کی توجہ سیکیورٹی چیلنجز سے ہٹی رہی تو اس سے مزید پریشانیاں پیدا ہوں گی۔
’’ اگرچہ پاکستانی فوج کا یہ تاثر ہے کہ یہ ایک منظم ادارہ ہے لیکن سیاسی افرا تفری، امن و امان میں بگاڑ اس حد تک بڑھ جائے کہ حالات بے قابو ہوںے لگیں کہ آرمی کمزور پڑ جائے یا منقسم ہو جائے تو امریکہ میں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے تشویش میں اضافہ ہوگا‘‘۔
ادھر امریکہ کے سابق نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ عمران خان کی زندگی کو شدید خطرہ ہے۔
ایک ٹویٹ میں انہو ں نےکہا کہ پاکستان کے حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں جس سے ریاستی اداروں میں اتحاد بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
خلیل زاد نے عمران خان کی حراست کو تنقید کا نشانہ بتاتے ہوئے کہا کہ رپورٹس کے مطابق یہ قانون اور آئین کی خلاف ورزی تھی۔ انہوں نے ان خدشات کا اظہار کیا کہ پاکستان کو دنیا بھر میں تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
واشنگٹن میں قائم تحقیقی ادارے پولی ٹیکٹ کے ماہر عارف انصار ڈاکٹر وائن بام کی بات سے اتفاق کرتے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ جہاں تک پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی سیکیورٹی کا معاملہ ہے تو اس سے قبل بھی پاکستان زیادہ گھمبیر وقت سے گزر چکا ہے ۔
افغان جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت مغرب یہ سمجھتا تھا کہ پاکستان کو اس بات کا شدید خطرہ تھا کہ شورش پسند قوتیں اور دہشت گرد تنظیمیں کہیں حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نیوکلیئر ہتھیاروں تک نہ پہنچ جایئں۔
اس کے بعد امریکہ نے پاکستان کے ساتھ مل کر ایٹمی اثاثوں کی حفاظت پر کام کیا ۔ اور اب تک اس معاملے پر واشنگٹن سے بیان نہ آنا اس بات کی غمازی ہے کہ امریکہ کو ان ہتھیاروں کی حفاظت کے معاملےمیں پاکستان پر پر اعتماد ہے۔
ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ واشنگٹن نے ابھی تک پاکستان کی بحرانی کیفیت پر تبصرہ کرنے میں احتیاط سے کام لیا ہے۔ اس کے پس منظر میں، عمران خان کی حکومت میں تبدیلی کے بعد امریکہ پر پاکستان کے معاملات میں دخل اندازی کے الزامات ہو سکتے ہیں۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ امریکہ ہمیشہ سے یہ کہتا آیا ہے کہ وہ پاکسستان میں جمہوریت چاہتا ہے۔
لیکن عارف انصار یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کی پاکستان کے لیے ایک پریشان کن وجہ یہ بھی ہے کہ مغرب اور امریکہ اس وقت پاکستان میں کوئی خاص دلچسبی نہیں رکھتے۔
ایسے حالات میں جب کہ مغربی ممالک پہلے ہی پاکستان سے دور ہیں، اسے ملک میں جمہوریت کی تنزلی اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی سے بین الااقوامی سطح پر مزید دوری اور تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس ضمن میں انہوں نے اس جانب اشارہ کیا کہ امریکہ اور یورپی یونین دونوں ہی نے پاکستان کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے قانون کے مطابق مسائل کی حل پر زور دیا ہے۔
ان کے بقول پاکستان کی عالمی سطح پر مزید تنہائی اور دوری کے سبب پاکستان کو اپنے معاشی مسائل حل کرنے میں بہت دشواریاں پیش آئیں گی ۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’ میر ے خیال میں ملک کی معیشت اس وقت بھی پاکستان کا انتہائی اہم بلکہ اہم ترین مسئلہ ہے اور آزادی رائے، اطلاعات تک رسائی اور حق احتجاج جیسے بنیادی جمہوری حقوق کی عدم دستیابی ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی نظر میں مزید دور کردے گی جب کہ معیشت کے مسائل کا حل دنیا کے ساتھ مل کر کام کرنے میں ہے۔