|
سعودی حکام نے اعلان کیا ہے کہ حج میں 1301 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ عازمین کو مذہبی عقائد کی ادائیگی کے دوران شدید گرم موسم کا سامنا رہا۔
سعودی عرب کے وزیرِ صحت فہد بن عبد الرحمٰن الجلاجل کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والوں میں 83 فی صد غیر مجاز عازمین تھے۔ ان عازمین میں اکثر نے شدید گرمی میں مناسک حج کی ادائیگی اور مکہ کے اطراف سفر میں طویل فاصلہ پیدل طے کیا تھا۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق وزیرِ صحت نے مزید کہا کہ 95 عازمین کو اسپتالوں میں علاج کے لیے لایا گیا جن میں سے بعض کو جہاز کے ذریعے دارالحکومت ریاض بھی منتقل کیا گیا۔
فہد بن عبد الرحمٰن الجلاجل نے سرکاری ٹی وی 'ال اخباریہ ٹی وی' سے گفتگو میں کہا کہ ہلاک ہونے والوں کی شناخت میں تاخیر اس لیے ہوئی کیوں کہ ان میں بیشتر کے پاس شناختی دستاویزات نہیں تھیں۔
انہوں نے کہا کہ حج میں ہلاک ہونے والوں کی تدفین مکہ میں کی گئی ہے۔ البتہ انہوں نے اس حوالے سے اعداد و شمار فراہم نہیں کیے کہ کتنے افراد کی تدفین کی گئی ہے۔
مصر میں ٹریول ایجنسیوں کے خلاف کارروائی
دوسری جانب مصر کے حکام نے کہا کہ حج کے دوران 660 مصری عازمین کی اموات ہوئیں جن میں صرف 31 افراد بغیر قانونی دستاویزات کے حج میں شریک ہوئے۔
حکام کا مزید کہنا تھا کہ مصر میں ان ٹریول ایجنسیوں کےخلاف کارروائی شروع کر دی گئی ہے جنہوں نے غیر مجاز عازمین کو حج کے لیے سعودی عرب کے سفر پر بھیجا۔
مصر میں 16 ٹریول ایجنسیوں کے لائسنس منسوخ کرنے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ مصر سے رواں برس 50 ہزار سے زائد عازمین قانونی طریقے سے حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب گئے تھے۔
سعودی عرب نے غیر مجاز عازمین کے خلاف کارروائی حج سے قبل شروع کر دی تھی اور ہزاروں افراد کو واپس روانہ کیا گیا تھا۔ البتہ مصر سے تعلق رکھنے والے غیر مجاز عازمین پیدل سفر کرکے مکہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
واضح رہے کہ غیر مجاز عازمین کو حج کی ادائیگی کے دوران ہوٹل یا خیموں کی سہولت دستیاب نہیں ہوتی جس کے سبب وہ حج کی ادائیگی میں سخت موسم میں کھلے آسمان تلے گرمی کا سامنا کرتے ہیں۔
دیگر ممالک کے عازمین کی اموات
حج کے دوران انڈونیشیا کے 150 سے زائد عازمین کی بھی اموات ہوئی تھیں۔
’اے پی‘ کے مطابق انڈونیشیا کے 165 عازمین جب کہ بھارت کے 98 عازمین کی ہلاکتوں کی تصدیق ہو چکی ہے۔
اسی طرح اردن، تیونس، مراکش، الجزائر اور ملائیشیا کے بھی درجنوں عازمین کی اموات ہوئی تھیں۔
'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق امریکہ کے دو شہری بھی حج کے دوران ہلاک ہوئے تھے۔
حج کے دوران اموات کی وجوہات کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی تھی۔ البتہ اردن اور تیونس نے اپنے شہریوں کی ہلاکت کی وجہ سخت موسم کو قرار دیا تھا۔
حج کے دوران بڑی تعداد میں اموات ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں۔ مکہ کے قریب پانچ دن تک مذہبی احکامات کی ادائیگی کے لیے ہر برس لگ بھگ 20 لاکھ افراد جمع ہوتے ہیں۔ ماضی میں ہلاکت خیز بھگدڑ کے واقعات بھی پیش آتے رہے ہیں۔
سال 2015 میں حج کے موقع پر ہونے والی بھگدڑ کے دوران لگ بھگ ڈھائی ہزار اموات ہوئی تھیں۔ سعودی حکام کی جانب سے بھگدڑ کے واقعات میں ہونے والی تمام اموات کے اعداد و شمار تسلیم نہیں کیے جاتے۔ اسی برس مکہ میں مسجد الحرام میں ایک تعمیراتی کرین گرنے سے سو سے زائد اموات ہوئی تھیں۔
حج کے دوران 1990 میں بھی ہلاکت خیز بھگدڑ کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں 1426 اموات ہوئی تھیں۔
حج میں 22 ممالک کے 16 لاکھ عازمین کی شرکت
سعودی عرب کے موسمیات کے قومی سینٹر کے مطابق رواں برس حج کے ایام میں مکہ اور اطراف میں گرمی کی شدت 46 ڈگری سے 49 ڈگری کے درمیان تھی۔
سعوی حکام کا کہنا ہے کہ رواں برس حج کے 18 لاکھ 30 ہزار سے زائد افراد کو اجازت ناموں کا اجرا کیا گیا تھا۔
حکام کے مطابق 16 لاکھ لوگ دنیا کے 22 ممالک سے حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب پہنچے جب کہ دو لاکھ 22 ہزار سعودی شہریوں کو حج کی ادائیگی کی اجازت ملی تھی۔
(اس رپورٹ میں معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے شامل کی گئی ہیں۔)