سپریم کورٹ نے مقامی حکومتوں کی بحالی میں تاخیر پر تحقیقات کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے معاملے کی سماعت کی۔ دورانِ سماعت پنجاب حکومت نے مقامی حکومتوں کی بحالی کا سرکاری اعلامیہ پیش کیا۔
عدالت نے پنجاب حکومت کے لاہور ہائی کورٹ کے حکم ناموں پر جمع کرائے گئے تحریری جوابات بھی طلب کیے جب کہ چیف سیکریٹری پنجاب، سابق چیف سیکریٹری پنجاب اور سیکریٹری لوکل گورنمنٹ کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا۔
چیف جسٹس نے مقامی حکومتوں کی بحالی سے متعلق پنجاب حکومت کے سرکاری اعلامیے کی ڈرافٹنگ کو غلط قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ صوبائی حکومت سمجھتی ہے بلدیاتی حکومتیں انہوں نے بحال کی ہیں۔ تحقیقات کر کے معاملے کی تہہ تک جائیں گے۔
جسٹس مظہر عالم میاں خیل کا کہنا تھا کہ سیکریٹری لوکل گورنمنٹ نورالامین مینگل نے ذمہ داری وزیرِ اعلیٰ پنجاب پر ڈال دی ہے۔ سیکریٹری کے تحریری جواب میں ہے کہ وزیرِ اعلیٰ کو سمری بھیجی تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو بھی ذمہ دار ہوا، اسے کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
عدالتِ عظمیٰ نے کیس کی سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی ہے۔
قبل ازیں 15 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران عدالت نے فیصلے کے باوجود مقامی حکومتوں کو غیر فعال رکھنے پر پنجاب حکومت کی سرزنش کی تھی اور چیف جسٹس نے سیکریٹری لوکل گورنمنٹ پنجاب نور الامین مینگل کو کہا تھا کہ یہ کس قسم کا سیکریٹری لوکل گورنمنٹ رکھا ہوا ہے۔
لاہور میں 18 اکتوبر کو ہونے والے اجلاس میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے پنجاب کی بلدیاتی حکومتیں بحال کرنے سے متعلق عدالتی حکم کے بعد ان کو فعال کرنے کا حکم دیا تھا۔
وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار نے محکمۂ بلدیات کو اسی روز سرکاری اعلامیہ جاری کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلدیاتی اداروں کو فعال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ہر اقدام آئین و قانون کی روشنی میں کریں گے۔
محکمۂ بلدیات نے وزیرِ اعلیٰ کی ہدایت پر فوری طور پر عمل کرتے ہوئے بلدیاتی حکومتوں کو فعال کرنے اور ایڈمنسٹریٹرز کی دستبرداری کا نوٹیفکشن جاری کیا تھا۔
پنجاب میں بلدیاتی حکومتوں کو سپریم کورٹ کی طرف سے رواں سال 25 مارچ کو بحال کیا گیا تھا۔ ان کی مدت دسمبر میں ختم ہو رہی ہے۔
بلدیاتی حکومتوں کی بحالی کیوں نہ ہو سکی؟
رواں سال 25 مارچ کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے پنجاب کے بلدیاتی ادارے بحال ہونے کے بعد بھی صوبائی حکومت نے سرکاری اعلامیہ جاری نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے سات ماہ مقامی حکومتیں کوئی کام نہیں کر سکیں۔
بعض بلدیاتی اداروں کے سربراہان نے اپنی ٹیم کے ہمراہ دفاتر جانے کی کوشش کی تو وہاں تالے لگا دیے گئے جس پر بعض مقامات پر سڑکوں پر اجلاس ہوئے البتہ ان کی کسی بھی سرکاری افسر نے کوئی بات نہیں سنی کیوں کہ سرکاری اعلامیہ موجود نہیں تھا۔
اس حوالے سے راولپنڈی کے میئر سردار نسیم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کے بلدیاتی اداروں کے ساتھ تحریکِ انصاف کی حکومت نے ظلم کیا ہے اور پورے صوبے کو کچرے کا ڈھیر بنا دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلدیاتی ادارے مقامی سطح پر عوام کے روزمرہ کے مسائل کے حل کے لیے کام کرتے ہیں۔ البتہ پنجاب حکومت نے مسلم لیگ (ن) کے اکثریتی نمائندوں کی وجہ سے ستمبر 2018 میں حکم نامہ جاری کیا تھا کہ ایک بلب بھی اگر لگانا ہے تو اس کے لیے چیف انجینئر لوکل گورنمنٹ پنجاب سے اجازت لینا ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس پر احتجاج کیا گیا اور عدالتوں میں اسے چیلنج بھی کیا گیا۔ مارچ 2019 میں عدالتوں سے ہمارے حق میں فیصلہ آیا جس کے بعد گورنر کے احکامات کے مطابق بلدیاتی ادارے ختم کر دیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے ہمارے 60 فی صد فنڈز صوبائی اسمبلی کے اراکین اور 40 فی صد قومی اسمبلی کے ارکان کو دے دیے۔ ہمارا قصور صرف سیاسی وابستگی تھی اور ہمیں کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
بلدیاتی اداروں کے سربراہان کا مزید وقت دینے کا مطالبہ
پنجاب کے بلدیاتی حکومتوں کے سربراہان اس وقت پنجاب حکومت کی طرف سے بلدیاتی اداروں کو کام سے روکنے اور صرف سرکاری اعلامیہ جاری کرنے میں سات ماہ لگانے پر قانونی کارروائی کا سوچ رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کا وقت ضائع کیا گیا اس لیے انہیں وقت دیا جائے۔
اس بارے میں راولپنڈی کے میئر سردار نسیم کا کہنا تھا کہ بلدیاتی حکومتوں کو ختم کرنے کے بعد وقت باقی تھا۔ رواں سال مارچ میں سپریم کورٹ کی طرف سے ادارے بحال ہونے کے بعد سات ماہ تک سرکاری اعلامیہ جاری نہ کرکے عوام کی نمائندہ مقامی حکومتوں کو ان کی نمائندگی سے محروم کیا گیا۔
ان کے مطابق اب وہ اس بارے میں قانونی کارروائی کا سوچ رہے ہیں کہ ان کی مدت میں اضافہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ بلدیاتی حکومتوں کی مدت میں صرف دو ماہ باقی رہ گئے ہیں اور اس عرصے میں وہ کوئی کام مکمل نہیں کر سکتے۔ لہذا ان کے منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے بلدیاتی اداروں کی مدت میں کم از کم ایک سال کی توسیع ہونی چاہیے۔
پنجاب حکومت کا مؤقف
پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد سرکاری اعلامیہ جاری ہونے میں تاخیر ہوئی ہے البتہ اس کی بہت سی وجوہات تھیں۔
انہوں نے کہا کہ 2019 کا جو قانون تھا وہ مختلف تھا اور اس کی وجہ سے 2013 کے قانون میں موجود مقامی حکومتوں کے نظام کو تبدیل کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے میٹرو پولیٹن کارپوریشن نہیں تھی، اب ہیں۔ میونسپل کمیٹیاں تھی وہ کم ہو گئیں۔ اس وجہ سے جب یہ سب تبدیلیاں آئیں تو پرانی چیزوں کو بحال کرنا ضروری تھا۔ اس بارے میں ہر ضلع میں منصوبہ بندی کی گئی اور عدالتی حکم پر مکمل عمل درآمد کے لیے تمام اقدامات کیے گئے۔
پنجاب کے مختلف میئرز کی طرف سے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو فنڈز کی فراہمی کے دعوے پر حسان خاور نے کہا کہ اراکین پارلیمان کا اپنا کردار ہے۔ وہ برادریوں کے ساتھ مل کر مختلف اسکیمیں پیش کرتے تھے۔ لوکل گورنمنٹ کے ڈیپارٹمنٹ ان کی منظوری دیتے تھے۔ جو اسکیم منظور ہو جاتی ہے اس کے لیے ایوارڈ جاری ہوتا ہے۔ البتہ کسی ایم این اے یا ایم پی اے کو فنڈز دینے کی بات درست نہیں ہے۔ کسی رکنِ پارلیمان کو کوئی براہِ راست فنڈ جاری نہیں کیا جاتا۔
گزشتہ سات ماہ کے دوران مختلف اسکیموں کی منظوری اور ٹھیکوں کے بارے میں حسان خاور نے کہا کہ اس عرصے کے دوران بہت سی اسکیمیں منظور ہوئی ہیں۔ حکومت کے 27 ارب روپے کے منصوبوں میں سے آٹھ ارب روپے کے لگ بھگ ساڑھے چھ ہزار اسکیمیں منظور ہو چکی ہیں۔ تین ہزار منصوبوں میں ٹھیکے بھی دیے جا چکے ہیں اور اب پنجاب حکومت اس حوالے سے غور کر رہی ہے کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا۔
بحال ہونے والی بلدیاتی حکومتوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ مقامی حکومتیں اب بحال ہو گئی ہیں۔ ان کو دفاتر اور گاڑیوں سمیت سہولیات فراہم کر دی گئی ہیں۔ مختلف اسکیموں اور فنڈز کے حوالے سے جلد پلان ترتیب دیا جائے گا۔