سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو فوری طور پر بحال کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ عوام نے بلدیاتی نمائندوں کو پانچ سال کے لیے منتخب کیا تھا، لہذٰا ایک نوٹی فکیشن کے ذریعے اُنہیں ختم کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
پنجاب حکومت نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ یہ معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں زیرِ التوا ہے۔ تاہم عدالت نے اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور پنجاب میں بلدیاتی ادارے بحال کر دیے۔
پنجاب میں دو سال قبل سابقہ بلدیاتی نظام تحلیل کر دیا گیا تھا جس کے بعد تمام میٹرو پولیٹن کارپوریشنز اور یونین کونسلز ختم ہو گئی تھیں۔ نئے بلدیاتی نظام کے تحت ایڈمنسٹریٹرز تعینات کیے گئے تھے۔
سپریم کورٹ میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت جمعرات کو ہوئی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی پر مشتمل بینچ کے سامنے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب پیش ہوئے۔
ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب قاسم چوہان نے دلائل دیے کہ پنجاب حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے تیار ہے اور چاہتی ہے کہ اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کیا جائے۔ لیکن معاملہ ابھی مشترکہ مفادات کونسل میں زیرِ التوا ہے۔
ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس 24 مارچ کو ہونا تھا لیکن وزیرِاعظم کے کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے باعث اب اجلاس سات اپریل کو ہو گا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا باقی صوبوں میں بلدیاتی انتحاب ہو رہے ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ باقی صوبوں کی مردم شماری پر اعتراضات ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پنجاب کی مقامی حکومتوں کو کیوں ختم کیا گیا؟ اس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ پنجاب میں بلدیاتی حکومتوں کی میعاد دسمبر 2021 تک تھی۔
درخواست گزار کے وکیل عمر گیلانی نے مزید بتایا کہ سن 2018 انتحابات کے بعد پنجاب اور وفاق میں نئی جماعت کی حکومت آئی، نئی پنجاب حکومت نے بلدیاتی حکومتیں تحلیل کر کے ایک سال میں الیکشن کرانے کا وقت دیا۔ ایک سال کی مدت گزرے کے بعد پنجاب حکومت نے نئی ترمیم کی اور پھر آرڈیننس جاری کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کی کیسے وضاحت دی جا سکتی ہے کہ عوام کو منتحب نمائندوں سے دور رکھا جائے؟ آئین کے آرٹیکل 140 کے تحت قانون بنا سکتے ہیں۔ لیکن ادارے کو ختم نہیں کر سکتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کی ایک حیثیت ہوتی ہے چاہے وہ وفاقی صوبائی یا بلدیاتی ہو، اختیار میں تبدیلی کر سکتے ہیں بنیادی ڈھانچہ کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ عوام نے بلدیاتی نمائندوں کو پانچ سال کے لیے منتخب کیا، ایک نوٹی فکیشن کا سہارا لے کر انہیں گھر بھجوانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا یہ تضاد نہیں کہ آپ اختیار نچلی سطح پر لے جانا چاہتے ہیں اور خود ہی اختیار ختم کر دیا، وجہ بتائیں بلدیاتی حکومت کس قانون کے تحت کیوں ختم کی گئی۔
پنجاب حکومت کے وکیل قاسم چوہان نے کہا کہ بلدیاتی الیکشن نہ ہونے کی وجہ کرونا کی وبا بھی ہے۔
جسٹس اعجاز نے کہا کہ کیا گلگت بلتستان میں انتخابات نہیں ہوئے؟ پہلے چھے ماہ کے لیے بلدیاتی اداروں کو ختم کرنے کے بعد پھر انتخابات کا اعلان کیا گیا، اس کے بعد 21 ماہ کی توسیع کی گئی اب مشترکہ مفادات کونسل سے مشروط کر رہے ہیں۔
عدالت نے سماعت کے بعد پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو بحال کرنے کا حکم دے دیا اور کہا کہ پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ کا سیکشن تین غیر آئینی ہے۔
پنجاب میں بلدیاتی ادارے کیوں ختم ہوئے؟
پنجاب میں مئی 2019 کو نیا بلدیاتی نظام نافذ کرنے کے قوانین صوبائی اسمبلی نے منظور کیے گئے تھے۔ گورنر پنجاب کی منظوری کے بعد پنجاب لوکل گورنمنٹ 2019 اور پنجاب ولیج پنچایت اور نیبرہوڈ کاؤنسلز 2019 کے بل صوبے میں لاگو کر دیے گئے تھے۔
نئے بلدیاتی نظام کے تحت دیہات میں تحصیل اور پنچایت کونسلیں جب کہ شہروں میں میٹروپولیٹن اور میونسپل کارپوریشن اورنیبرہوڈ کونسلیں بننا تھیں۔
شہری اور تحصیل کونسلز کے انتخابات جماعتی اور نیبرہوڈ کونسلز، پنچایت کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوںا تھے لیکن دو سال کا عرصہ گزرنے کے بعد ان پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔
بعض حلقوں کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ان قوانین کا مقصد پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی طاقت اور ووٹ بینک کو کنٹرول کرنا تھا، تاہم حکومت کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد نچلی سطح پر سیاسی جماعتوں کی مداخلت کے بغیر عام شہریوں کو عوامی خدمت کے لیے منتخب کرنا تھا۔
اس کیس میں درخواست گزار ناروورال کے میئر احمد اقبال کے وکیل عمر گیلانی ایڈوکیٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی اسمبلی میں پنجاب حکومت نے ایکٹ کے ذریعے یہ حکومتیں ختم کی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ 2010 میں لوکل باڈی ایکٹ کے آرٹیکل 140 اے کے مطابق جب بلدیاتی حکومت اپنا پانچ سال کا مینڈیٹ لے کر آئی ہے تو اسے پانچ سال پورا کروانا حکومت کی ذمے داری ہے، اس بارے میں پنجاب حکومت کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی۔